”میں کبھی یقین نہیں کر سکتا کہ عمر اس طرح کا ہے جس طرح کا تم اسے بتاتی ہو۔ اگر ساری دنیا بھی میرے سامنے جمع ہو کر ایک وقت میں وہی باتیں کہے جو تم کہتی ہو، تب بھی میں یقین نہیں کروں گا۔” اس کے لہجے اور انداز میں قطعیت تھی۔
”وہ میرا بہترین دوست ہے اور میں اسے کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں۔” وہ خالی خالی نظروں سے اس کا چہرہ دیکھے گئی۔
جنید ابراہیم کا چہرہ، اپنے منگیتر کا چہرہ، عمر جہانگیر کے بہترین دوست کا چہرہ۔
جنید نے اپنی بات جاری رکھی۔ ”صرف میں ہی نہیں میرے گھر والوں کے لیے بھی وہ کوئی اجنبی شخص نہیں ہے۔ وہ ہماری فیملی کا ایک فرد ہے، یہ سمجھ لو کہ میری امی کا تیسرا بیٹا ہے وہ۔ اگر وہ آئے نہ تب بھی فون پر میرے گھر والوں سے اس کا رابطہ رہتا ہے۔ میرے پیرنٹس سے خاص طور پر میری چھوٹی بہن سے…فری سے۔۔۔”
”تو آپ عباس کے دوست نہیں ہیں؟” اس نے ایک لمبی خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا۔
”نہیں۔۔۔” جنید نے نفی میں سر ہلایا۔ ”عمر کے توسط سے میں تمہیں اور تمہاری فیملی کے اور بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں اور ان میں عباس بھی شامل ہے مگر عبا س سے میری کوئی دوستی نہیں ہے۔ صرف جان پہچان ہے۔” جنید نے کہا۔
”اور مجھے…مجھے آپ کب سے جانتے ہیں؟” اس نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔
جنید کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری۔” بہت سال ہو گئے ہیں۔ یہ کہنا بہتر ہے کہ بہت سالوں سے …پہلی بار میں تب تم سے ملا تھا جب عمر سول سروس کے امتحان کے لیے پاکستان میں تھا۔ عمر کے ساتھ میں تمہارے گھر آیا تھا۔ تم اس وقت کہیں جا رہی تھیں اور ہم لوگ لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے۔ عمر نے ہم دونوں کا تعارف کروایا تھا پھر دو تین بار میں نے فون کیا تھا عمر کے لیے اور تم نے فون ریسیو کیا تھا۔
علیزہ کو یاد آیا کہ جنید سے پہلی بار بھوربن میں ملاقات کے دوران اسے بار بار یوں لگتا تھا جیسے وہ اسے پہلے بھی کہیں دیکھ چکی ہے مگر کوشش کے باوجود وہ یہ یاد کرنے میں ناکام رہی تھی کہ اس نے اسے کہاں دیکھا تھا، بعد میں اس نے اپنے اس خیال کو جھٹک دیا تھا۔
”اس کا مطلب ہے نانو بھی آپ کو بہت عرصہ سے جانتی ہوں گی؟”
”ہاں تب ہی سے، جب میں عمر کے ساتھ دوچار بار ان کے ہاں آیا۔ بعد میں بھی ان سے بات وغیرہ تو ہوتی تھی مگر ملاقات کا سلسلہ قدرے محدود ہی رہا کیونکہ میں کچھ اور تعلیم کے لیے ایک بار پھر باہر چلا گیا تھا۔” جنید بڑے آرام سے بتاتا گیا۔
”عمر سے میں نے تمہارا بہت ذکر سنا تھا۔ تم ان چند لوگوں میں سے ہو…جن کا نام ہمیشہ اس کی زبان پر رہا ہے۔ تمہارے لیے کسی زمانے میں بہت پریشان بھی رہتا تھا اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم دونوں کی کسی زمانے میں آپس میں بہت اچھی دوستی تھی۔”
وہ گم صم اس کی باتیں سن رہی تھی۔
”پھر عمر کے کیریئر کی وجہ سے تمہارے اور اس کے درمیان کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں اور تم اسے برا سمجھنے لگیں۔ مگر عمر کی رائے تمہارے بارے میں ہمیشہ اچھی رہی، میں نے اسے کبھی تمہارے بارے میں کچھ بھی برا کہتے ہوئے نہیں سنا۔ کبھی بھی نہیں…تمہاری ہمیشہ تعریف کرتا ہے وہ۔” جنید دھیمے لہجے میں کہتا جا رہا تھا۔
”مجھ سے شادی کرنے کے لیے کس نے کہا تھا آپ کو؟عمر نے؟”
اپنے ہونٹ بھنچتے ہوئے اس نے جنید کی بات کو ان سنی کرکے پوچھا۔ جنید اس کی بات کے جواب میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا وہ کچھ نہ کہتا، تب بھی وہ اس سوال کا جواب جان چکی تھی۔ شکست خوردہ انداز میں اس نے اپنے سامنے پڑا ہوا پانی کا گلاس اٹھا لیا۔
”کئی سال پہلے اس نے مجھ سے ایک بار ایسی بات کی تھی۔” جنید کا لہجہ اب پہلے سے بھی زیادہ دھیما تھا، شاید وہ علیزہ کے تاثرات سے اس کی دلی کیفیت جان رہا تھا۔
”اس وقت میں شادی کے بارے میں سیریس نہیں تھا بلکہ اس وقت میں نے اس بارے میں کچھ سوچا ہی نہیں تھا کیونکہ میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہ رہا تھا اور یہ بات میں نے اس کو بتا دی تھی مگر وہ بضد تھا کہ جب بھی شادی کروں اس کے خاندان میں کروں، تم سے کروں…وہ چاہتاتھا کہ میں اس کے خاندان کا ایک حصہ بن جاؤں، مجھے اس وقت اس کی بات پر ہنسی آتی تھی کیونکہ میرا خیال تھا کہ وہ جتنا تمہارا ذکر کرتا تھا شاید وہ خود تم میں انٹرسٹڈ تھا مگر بعد میں میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔”
ہاتھ میں پکڑے ہوئے گلاس پر علیزہ کی گرفت کچھ اور سخت ہو گئی۔
”میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوبارہ باہر چلا گیا مگر عمر بار بار مجھے یہ یاد دلاتا رہا کہ واپس آکر مجھے تم سے شادی کرنی ہے۔” جنید نے ایک بار پھر کہنا شروع کیا۔ ”واپس آ کر بھی وہ مجھ سے یہی کہتا رہا کہ میں اپنی شادی کے بارے میں بالکل پریشان نہ ہوں کیونکہ وہ بہت عرصہ پہلے ہی یہ طے کر چکا ہے کہ مجھے کس کے ساتھ شادی کرنی ہے۔ پھر آخر کار جب کچھ سیٹ ہو جانے کے بعد میں نے شادی کا فیصلہ کیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ میں تم سے ایک بار مل لوں، اس نے یہ بھی کہا کہ میں یہ ظاہر نہ کروں کہ میں عمر کا دوست ہوں کیونکہ اس کا خیال تھا کہ اس صورت میں تم کبھی مجھ سے شادی پر تیار نہیں ہوگی۔ اس لیے عباس کے گھر والوں کی مدد لینی پڑی۔” وہ ایک بار پھر بات کرتے کرتے رکا۔
”بھوربن میں عباس کی ممی تمہیں مجھ سے ملوانے کے لیے ہی لے کر آئی تھیں۔ وہ خود ذاتی طور پر مجھ سے صرف ایک بار ہی ملی تھیں اور میری فیملی کو بھی نہیں جانتی تھیں مگر عمر نے ان سے کہا کہ وہ تمہیں لے کر بھوربن جائیں اور مجھ سے ملوا دیں۔”
وہ خالی الذہنی کے عالم میں اس کا چہرہ دیکھتی رہی۔