Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”میری اور عمر کی دوستی اس نوعیت کی ہے کہ میں اس کی بات نہیں ٹال سکتا۔ وہ تمہارے بجائے مجھے کسی اور لڑکی سے بھی شادی کا کہتا تو میں تب بھی تیار ہو جاتا۔ تمہاری تو خیر بات ہی دوسری تھی۔ تمہارے بارے میں تو وہ کئی سالوں سے میری برین واشنگ کرتا آرہا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بھوربن میں تم سے اتنے سالوں بعد دوبارہ ملنے پر مجھے تمہارے لیے کوئی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔ مجھے یونہی لگا جیسے میں بہت سالوں سے تم سے ملتا رہا ہوں۔”
جنید رکا۔
”تم نے مجھے پہچانا نہیں، حالانکہ مجھے اس کا خدشہ تھا مگر عمر کو یقین تھا کہ تم مجھے نہیں پہچان سکو گی۔ تمہارے بارے میں اس کے اندازے ہمیشہ صحیح ثابت ہوتے ہیں۔ میرے گھر والوں نے بھی میرے کہنے پر تم پر یہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ عمر کو جانتے ہیں یا عمر ہمارے ہاں آتا جاتا ہے۔ میں نے تمہاری اور عمر کی آپس میں غلط فہمی کے بارے میں انہیں بھی بتا دیا ہے مگر یہ سب ہمیشہ ایسا نہیں رہ سکتا تھا۔ کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی طرح تمہیں یہ بات ضرور پتا چل جاتی کہ میں اور عمر آپس میں دوست رہے تھے اور پھر تم۔۔۔” جنید بات کرتے کرتے رک گیا۔
”شناسائی، پسندیدگی، محبت…ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ میرے لیے عمر کا ایک اور احسان…بس اور کیا تھا جنید ابراہیم۔۔۔” علیزہ نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو دیکھتے ہوئے بے یقینی سے سوچا ”اور میں پچھلے ایک سال سے اس گمان اور خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ یہ شخص مجھ کو دیکھ کر…مجھ سے مل کر میری محبت میں گرفتار ہو گیا ہے اور میں نے اپنے وجود کو خوش فہمیوں اور سرابوں کی کتنی لمبی زنجیر میں جکڑ لیا تھا۔ کیا دنیا میں واقعی محبت نام کی کوئی چیز ہوتی ہے اور یہ شخص عمر کا یار غار جنید ابراہیم …جو مجھے یہ بتا رہا ہے کہ یہ عمر کے کہنے پر کسی سے بھی شادی کر سکتا تھا۔ یہ میری محبت میں اپنے دل کے کہنے پر کہاں مبتلا ہو سکتا تھا۔” وہ ماؤف ذہن کے ساتھ اسے دیکھے جا رہی تھی ۔ تھکن کا ایک عجیب احساس اس کے اندر سرایت کرتا جا رہا تھا ، کچھ دیر پہلے کی خوشی اور طمانیت جیسے بھک سے اڑ گئی تھی۔ جنید اس سے پھر کچھ کہہ رہا تھا۔



”میں جانتا ہوں ، یہ سب کچھ سن کر تمہیں بہت غصہ آ رہا ہوگا۔ مگر۔۔۔” جنید کہہ رہا تھا۔
”غصہ…؟” علیزہ نے اپنی کیفیات کو جانچا نہیں اسے غصہ نہیں آرہا تھا۔ شاید آج پہلی بار اس طرح کے انکشافات سن کر اسے غصہ نہیں آیا تھا۔ نہ عمر جہانگیر پر، نہ جنید ابراہیم پر، نہ اپنے آپ پر اور وہ یہ بات جنید ابراہیم کو بتانا چاہ رہی تھی کہ اسے جنید پر غصہ نہیں آرہا تھا۔ مگر یکدم ہی اسے احساس ہو رہا تھا کہ لفظوں کو چننا اور جوڑ کر ادا کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہو گیا تھا ۔ لفظ اپنی وقعت اور اپنی آواز بھی کھو گئے تھے۔
”میں تمہیں اس سب کے بارے میں کبھی بھی دھوکے میں نہ رکھتا، جلد یا بدیر میں تمہیں یہ سب کچھ بتا دیتا۔” وہ کہہ رہا تھا۔
”جلد یا بدیر؟” وہ پھر سوچنے لگی۔ ”کتنی جلدی اور کتنی دیر سے۔ اگر آج میں اصرار نہ کرتی تو کیا یہ مجھے سب کچھ بتا دیتا۔” اس نے جنید کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ ”اور اگر مجھے یہ سب کچھ شادی کے بعد پتا چلتا تو…تو میں کیا کر سکتی تھی؟”
”حالانکہ عمر یہ چاہتا تھا کہ تمہیں یہ سب کچھ کبھی نہ بتایا جائے لیکن میں یہ نہیں کر سکتا۔ تمہیں نہ بتانے کا مطلب ہے کہ عمر میرے گھر نہ آ سکے گا۔ نہ ہی میں اس سے اس طرح کھلے عام مل سکوں گا جس طرح اب ملتا ہوں اور میں اس سے اپنی دوستی کسی طرح ختم نہیں کر سکتا۔ کسی قیمت پر نہیں۔” وہ قطعیت سے کہہ رہا تھا۔ ”اسی لیے یہ چاہتا ہوں کہ تم اس کے بارے میں ہر غلط فہمی دور کر لو۔ عمر ایک بہت اچھا انسان ہے اور وہ ہمیشہ میرا بہترین دوست رہے گا۔ میں تمہارے کہنے پر یا کسی کے بھی کہنے پر اسے نہیں چھوڑوں گا۔”



علیزہ نے دوسری کرسی پر پڑا اپنا بیگ اٹھا لیا اور وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ جنید حیران رہ گیا۔ ”تم کہاں جا رہی ہو؟”
علیزہ نے جواب دینے کے بجائے قدم بڑھا دیئے۔
”علیزہ…علیزہ! جنید کچھ پریشان ہوتے ہوئے خود بھی اٹھ کھڑا ہوا مگر علیزہ نے مڑ کر اسے نہیں دیکھا۔ جنید نے اپنے والٹ میں سے کچھ نوٹ نکال کر میز پر رکھ دیئے اور خود بھی علیزہ کے پیچھے آ گیا۔ وہ اب دروازہ کھول کر سیڑھیاں اتر رہی تھی۔
”علیزہ! علیزہ…!جنید ایک بار پھر سے آوازیں دینے لگا۔ اس نے مڑے بغیر سیڑھیاں اترنا جاری رکھا وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے اس کے سامنے آگیا۔
”کیا ہوا؟ تم اس طرح باہر کیوں نکل آئی ہو؟”
علیزہ رک گئی ۔ وہ اس کے بالکل سامنے کھڑا تھا، وہ آگے نہیں جا سکتی تھی۔
”کیا ہوا ہے تمہیں؟” اس نے پریشانی سے پوچھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!