”اس طرح کھانا چھوڑ کر کیوں آگئی ہو؟”
”میں گھر جانا چاہتی ہوں…ابھی…اسی وقت۔۔۔” اس نے سُتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”ہمیں گھر ہی جانا تھا مگر اس طرح کھانا چھوڑ کر۔۔۔”
”آپ کھانا کھائیں…آپ کیوں کھانا چھوڑ کر آگئے ہیں؟ میں چلی جاؤں گی۔” اس نے جنید کے دائیں طرف سے نکلنے کی کوشش کی۔
”میں خود یہاں کھانا کھانے نہیں آیا تھا علیزہ! تمہارے ساتھ کھانا کھانے آیا تھا۔”
جنید نے افسوس سے کہا۔ وہ اب اس کے ساتھ چل رہا تھا۔ علیزہ خاموشی سے چلتی رہی۔
”ٹھیک ہے میں تمہیں گھر ڈراپ کر دیتا ہوں۔” جنید نے بالآخر ہتھیار ڈال دیئے۔
علیزہ نے اپنے قدم روک دیئے۔ جنید اب پارکنگ کی طرف جا رہا تھا وہ وہیں کھڑی رہی۔ کچھ دیر کے بعد وہ گاڑی اس کے قریب لے آیا۔ اس نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول دیا، وہ خاموشی سے اندر بیٹھ گئی۔
”میں جانتا ہوں تم مجھ سے ناراض ہو مگر میں نے ہر بات کی وضاحت کی ہے۔”
جنید یقیناً اب پریشان تھا اسی لیے اس نے گاڑی کو مین روڈ پر لاتے ہی ایک بار پھر اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہ اس کی طرف دیکھے بغیر ونڈ سکرین سے باہر دیکھتی رہی۔
”علیزہ…! میری طرف سے کسی غلط فہمی کو دل میں جگہ مت دو۔”
علیزہ کی خاموشی جنید کی پریشانی میں اضافہ کر رہی تھی۔
”میں نے کچھ ہفتے پہلے بھی ایک دن تم سے یہ کہا تھا کہ میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ میں یہی بات ہیں بتانا چاہتا تھا۔” وہ کہہ رہا تھا ”بلکہ میں عمر سے اپنی دوستی کو سرے سے چھپانا چاہتا ہی نہیں تھا۔ یہ اس کا اصرار تھا جس پر مجھے ایسا کرنا پڑا مگر اس میں تمہیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچا نہ میری طرف سے نہ عمر کی طرف سے اور ہمیں ایسا کیوں کرنا پڑا…میں تمہیں بتا چکا ہوں۔”
جنید کا لہجہ قدرے بے ربط ہو رہا تھا۔ علیزہ اب بھی ونڈ سکرین سے باہر دیکھتی رہی۔
جنید قدرے بے چارگی کے عالم میں خاموش ہو گیا۔ ”میں پھر بھی ایکسکیوز کرتا ہوں۔ ہو سکتا ہے تمہیں یہ سب کچھ بہت برا لگا ہو یا اس سے کوئی تکلیف پہنچی ہو تو۔۔۔” وہ چپ ہو گیا۔ شاید اس کے پاس کرنے کے لیے کوئی اور بات باقی نہیں رہی تھی۔
علیزہ کے گھر کے گیٹ پر اس نے ہارن بجا کر چوکیدار کو متوجہ کیا مگر گاڑی گیٹ پر رکتے ہی علیزہ دروازہ کھولنے لگی۔
”علیزہ! میں گاڑی اندر لے کر جا رہا ہوں۔” جنید نے کہا۔
”نہیں آپ یہیں سے چلے جائیں، اندر آنے کی ضرورت نہیں ہے۔” علیزہ نے سرد آواز میں اس سے کہا۔ جنید کا چہرہ خفت سے سرخ ہوا۔ چوکیدار اب گیٹ کھول رہا تھا۔
”تم اپنے شاپرز اٹھا لو۔”
جنید نے پچھلی سیٹ پر رکھے ہوئے شاپرز کی طرف اشارہ کیا مگر اس سے پہلے کہ وہ انہیں اٹھا کر اس کی طرف بڑھاتا، وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر اتر گئی۔ جنید نے اسے آواز دی مگر اس نے پیچھے مڑے بغیر گیٹ عبور کر لیا۔
کچھ جھنجھلاتے ہوئے جنید گاڑی کو آہستہ آہستہ اندر لے آیا۔ علیزہ کا رویہ۔ اس کے لیے بہت ناقابل یقین تھا۔ اگر اس کے وہم و گمان میں بھی یہ ہوتا کہ وہ اس طرح کے ردعمل کا اظہار کر سکتی ہے تو وہ کبھی اس کے سامنے اس طرح کے انکشافات نہ کرتا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ تھوڑا بہت ناراض ہو گی مگر وہ اسے سمجھا بجھا کر اس کی یہ ناراضی دور کر لے گا۔ مگر اس سے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ اس طرح بالکل چپ سادھ لے گی۔
علیزہ اپنے پیچھے اس کی گاڑی کے اندر آنے کی آواز سن رہی تھی مگر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ لاؤنج کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہو گئی۔ نانو لاؤنج میں ہی بیٹھی تھیں۔ انہوں نے علیزہ کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔
”تم بہت جلد آگئیں میں سوچ رہی تھی قدرے دیر سے آؤ گی۔”
انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے حیرت سے کہا۔ علیزہ نے ان کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ ایک نظر انہیں دیکھنے کے بعد وہ رکے بغیر لاؤنج سے گزر گئی۔ نانو نے حیرت سے اسے جاتے دیکھا۔ وہ اس کے چہرے کے تاثرات سے کچھ بھی اندازہ نہیں کر سکی تھیں۔
علیزہ وہاں رکے بغیر سیدھا اپنے کمرے میں چلی آئی۔ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے اپنے بیگ کو اپنے بستر پر اچھال دیا اور خود دیوار کے ساتھ پڑے صوفہ کی طرف بڑھ گئی۔ اپنے جوتے اتار کر دونوں پیر صوفہ کے اوپر رکھتے ہوئے کشن گود میں لے کر بیٹھ گئی۔ وہ اپنی کیفیات خود بھی سمجھنے سے قاصر تھی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ آج خلاف معمول اسے رونا نہیں آرہا تھا۔