”میرا نام میجر لطیف ہے میرے اور میری ٹیم کے بارے میں آپ کے پاس نوٹیفکیشن اور تفصیلات تو پہلے ہی پہنچ گئی ہوں گی۔”
عمر جہانگیر خاموشی سے بے تاثر چہرے کے ساتھ میز کے دوسری طرف بیٹھے ہوئے خاکی یونیفارم میں ملبوس اپنی ہی عمر کے اس میجر پر نظریں جمائے بیٹھا رہا جو بڑے میکانکی انداز میں چند فائلز سامنے ٹیبل پر رکھے پچھلے پانچ منٹ سے مسلسل بول رہا تھا وہ کچھ دیر پہلے دو دوسرے فوجیوں کے ساتھ اس کے آفس پہنچا تھا اور خاکی یونیفارم میں ملبوس ان تین افراد کے وہاں پہنچنے پر اس کے عملے میں جو ہڑبونگ مچی تھی اس نے عمر جہانگیر کی ناگواری میں اضافہ کر دیا تھا۔
وہ تینوں آج پہلی بار وہاں آئے تھے اور اگرچہ وہاں آنے سے پہلے عمر جہانگیر کو ان کے بارے میں مطلع کیا گیا تھا اور اس نے اپنے ماتحت عملے کو بھی آرمی مانیٹرنگ ٹیم کی آمد کے بارے میں بتا دیا تھا اور یقیناً اس کا عملہ بہت محتاط ہو گیا تھا۔ انہوں نے اپنا ریکارڈ وغیرہ بھی درست کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس کے باوجود ان تینوں کے وہاں آنے پر عمر جہانگیر نے ان کی حواس باختگی دیکھ لی تھی۔ وہ لاشعوری طور پر خوفزدہ تھے۔
اب وہ میجر اس کے آفس میں اس کے سامنے بیٹھا اسے آئندہ آنے والے دنوں میں اپنے لائحہ عمل کے بارے میں مطلع کر رہا تھا، وہ یقیناً خاصا ہوم ورک کرکے آیا تھا اور عمر کے لیے یہ کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں تھی۔ ان لوگوں کا انٹیلی جنس کا نظام اتنا فعال اور موثر تھا کہ چند گھنٹوں کے اندر وہ اپنی مطلوبہ معلومات حاصل کر سکتے تھے اسی لیے وہ تقریباً اس کے زیر اہتمام آنے والے ہر پولیس سٹیشن کے بارے میں بنیادی معلومات رکھنے کے علاوہ ان کی کارکردگی کے بارے میں بھی خاصا علم رکھتا تھا۔
اپنے لب و لہجے سے وہ کوئی بہت زیادہ دوستانہ مزاج کا حامل نہیں لگتا تھا اور یہ شاید آرمی میں ہونے کی وجہ سے تھا یا پھر اس ذمہ داری کی وجہ سے جو اسے سونپی گئی تھی وہ کسی لگی لپٹی کے بغیر بات کر رہا تھا اور عمر جہانگیر کے چہرے پر وقتاً فوقتاً اس کے تبصروں پر ابھرنے والے ناگواری کے تاثرات کو مکمل طور پر نظر انداز کیے ہوئے تھا۔
خاصے لوازمات کے ساتھ سرو کی جانے والی اس چائے نے بھی اس کے اس انداز میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی جو عمر جہانگیر کے ماتحت عملے نے خاصی عاجزی اور مستعدی کے ساتھ انہیں سروکی تھی۔ اپنے سامنے پڑی فائلز کو باری باری کھولے وہ تنبیہی انداز میں عمر جہانگیر کو اپنے اختیارات اور ذمہ داریوں کے ساتھ ان چیزوں سے آگاہ کرتا گیا جو اسے آئندہ آنے والے دنوں میں انجام دینی تھیں۔ عمر جہانگیر چائے پیتے ہوئے کسی قسم کے تبصرے کے بغیر بڑی خاموشی سے اس کی گفتگو سنتا گیا۔ جب اس لمبی چوڑی گفتگو کا اختتام ہوا تو عمر جہانگیر نے بڑے دوستانہ انداز میں اپنی بات کا آغاز کیا(وہ پہلی ہی ملاقات میں اختلافات کا آغاز نہیں کرنا چاہتا تھا)
”آپ لوگوں کو میری طرف سے پورا تعاون حاصل رہے گا نہ صرف میری طرف سے بلکہ میرے عملے کی طرف سے بھی اور آپ کے اس نگرانی کے کام سے مجھے خاصی مدد ملے گی بلکہ خاصی آسانی ہو جائے گی کہ مجھے اپنے عملے کی کارکردگی کا پتا چلتا رہے گا اور میں ان کی خامیوں سے آگاہ ہوتا رہوں گا۔”
عمر نے بڑے اطمینان سے کہتے ہوئے سامنے بیٹھے میجر کے چہرے پر نظر دوڑائی جو اس کے آخری چند جملوں پر اپنی کرسی پر پہلو بدل کر رہ گیا تھا۔
”اور۔۔۔” اس سے پہلے کہ عمر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کچھ اور کہتا، اس میجر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”کچھ تھوڑی سی غلط فہمی ہے جو ہونی تو نہیں چاہیے تھی کیونکہ میں نے آپ کو خاصی لمبی بریفنگ دی ہے مگر پھر بھی آپ کو ہو گئی ہے۔ ہم آپ سمیت آپ کے عملے کو مانیٹر کرنے آئے ہیں، آپ کو assist (معاونت) کرنے نہیں۔”
کھردرے لہجے میں کہے گئے اس جملے نے چند لمحوں کے لیے عمر کو خاموش کر دیا، وہ جانتا تھا اس وقت اس کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزرے ہوں گے۔
”اس لیے یہ غلط فہمی دور ہو جانی چاہیے کہ میری ٹیم یہاں آپ کی مدد کے لیے بھیجی گئی ہے آپ کی مدد کے لیے آپ کا اپنا عملہ کافی ہے آپ ان ہی پر اس معاملے میں انحصار کریں تو بہتر ہے۔”
اس میجر کے ترکش میں ابھی خاصے تیر باقی تھے۔
”ہم لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ لوگوں کی ورکنگ فیئر اور بہتر ہو اور یہ اس شہر کے پولیس کے سربراہ کے طور پر آپ کی ذمہ داری ہے۔ ہم صرف یہ دیکھیں گے کہ آپ اور آپ کا عملہ اس ذمہ داری کو کس طریقے سے پورا کر رہا ہے۔”
وہ میجر شاید محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دینے کے مقولے پر عمل کرنے میں یقین رکھتا تھا یا پھر گربہ کشتن روز اول پر عمل پیرا تھا۔ کمرے میں موجود اپنے ماتحت پولیس آفیسرز کے سامنے عمر جہانگیر نے اپنی ہتک محسوس کی کچھ دیر پہلے کا دوستانہ رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ اس نے چند سیکنڈز میں بدل دیا تھا۔
”میں جس طرح کام کر رہا ہوں اسی طرح کرتا رہوں گا، آرمی مانیٹرنگ ٹیم کی مانیٹرنگ سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی کیونکہ میں بہت اچھے طریقے سے کام کر رہا ہوں اتنے ہی اچھے طریقے سے جتنے اچھے طریقے سے ممکن ہے کیونکہ میں اپنا کام سیکھ کر یہاں آیا ہوں اور اس سارے نظام کو آپ سے بہتر جانتا ہوں اور جہاں تک عملے کی کارکردگی کا تعلق ہے تو وہ بھی بہتر ہے مگر اس سے زیادہ بہتری بھی ہو سکتی ہے کیونکہ بہتری کی گنجائش تو ہر جگہ ہوتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح آرمی میں۔”
اس میجر کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔