”اور اس بہتری کے لیے میں خاصی کوشش کر رہا ہوں کیونکہ ہم لوگوں کو سرو کرنے کے لیے اس شعبے میں آئے ہیں بلکہ اسی طرح جس طرح آپ لوگ سرو کررہے ہیں۔”
اس بار اس میجر نے اپنی کرسی پر ایک بار پھر پہلو بدلا۔
”اب دیکھتے ہیں اس معاملے میں ہم اور آپ ”مل” کر کیا کر سکتے ہیں۔”
عمر نے ”مل” پر زور دیتے ہوئے کہا۔ سامنے بیٹھے ہوئے میجر نے ایک بار پھر پہلو بدلا، یقیناً اس نے عمر کے بارے میں اپنی رائے بدلنی شروع کردی تھی۔
”آپ سے اب آئندہ ملاقات تو رہا ہی کرے گی تو تفصیل سے باقی معاملات پر گفتگو ہو گی۔ آج کے لیے تو میرا خیال ہے اتنا ہی کافی ہے، آپ میرے پولیس سٹیشن کا راؤنڈ لینا چاہیں تو میں اے ایس پی او کو ہدایات دے دیتا ہوں وہ آپ کو ریکارڈ سمیت باقی چیزوں سے آگاہ کر دے گا اور آپ گھوم پھر کر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ پھر اس کے بعد اگلی ملاقات میں تفصیل سے بات کریں گے۔”
عمر جہانگیر نے اپنے انداز سے انہیں یہ جتا دیا تھا کہ اب انہیں وہاں سے چلے جانا چاہیے کیونکہ میٹنگ بہت لمبی ہو گئی تھی جملے کو یہیں ختم کرنے پر اس نے اکتفا نہیں کیا بلکہ انٹر کام کا ریسیور اٹھا کر پولیس سٹیشن کے وزٹ کے بارے میں ہدایات بھی دینے لگا۔
میجر لطیف اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اسے کھڑا ہوتے دیکھ کر اس کے ساتھ موجود دوسرے فوجی بھی کھڑے ہو گئے عمر نے انٹرکام کا ریسیور رکھ دیا اور خود بھی کھڑا ہو گیا۔ اس نے ایک مصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے ٹیبل کے دوسری طرف موجود میجر کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ میجر لطیف نے تکلفاً یا شاید رسماً اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھامتے ہوئے مصافحہ کیا۔ ”آپ سے آئندہ آنے والے دنوں میں خاصی ملاقاتیں ہوتی رہیں گی۔”
عمر جہانگیر نے اس کے لہجے سے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ صرف رسمی جملہ نہیں تھا، وہ یقیناً اسے وارننگ دے رہا تھا۔
”ضرور کیوں نہیں اگر ان ملاقاتوں سے اس سسٹم میں کوئی بہتری ہو سکتی ہے تو ہم ضرور ملا کریں گے۔”
عمر نے اسی مصنوعی مسکراہٹ کو کچھ مزید گہرا کرتے ہوئے کہا۔ میجر لطیف نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا اس نے صرف میز پر پڑی ہوئی فائلز اٹھائیں اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ آفس سے نکل گیا۔
عمر نے کمرے میں موجود ڈی ایس پی بدر جاوید کو اس کے نکلتے ہی درشتی سے کہا۔
”مجھے اس میجر اور اس کمیٹی کے تمام لوگوں کے بارے میں مکمل انفارمیشن چاہیے۔ ہر قسم کی انفارمیشن ، فیملی بیک گراؤنڈ سے لے کر ہر پوسٹنگ تک مکمل تفصیلات کے ساتھ۔”
بدر جاوید نے اس کی بات پر سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”او کے سر…!”
”سارے پولیس سٹیشنز سے کہو اپنا ریکارڈ اپ ڈیٹ کریں۔ کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے نہ ہی میں برداشت کروں گا۔”
”This man is going to give us a very tough time”
اس نے میجر لطیف کے بارے میں تبصرہ کیا۔
”یہ گڑے مردے اکھاڑنے اور بال کی کھال اتارنے والا آدمی ہے اور خاصا بغض پالنے والی ٹائپ میں سے ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم لوگوں کی وجہ سے میں اس کے سامنے شرمندگی کا شکار ہوں۔”
عمر جہانگیر نے اسے تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔
”کوئی کوتاہی نہیں ہو گی سر۔” بدر جاوید نے ایک بار پھر یقین دلایا۔
”ٹھیک ہے تم جاؤ۔” اس نے انٹرکام اٹھاتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے اسے جانے کا اشارہ کیا۔
”ظفر تم اندر آؤ۔”
اس نے اپنے پی اے کو انٹرکام پر اندر آنے کی ہدایت دی اور پھر انٹرکام کا ریسیور رکھ کر اس رپورٹ کے بارے میں سوچنے لگا جو میجر لطیف سے ہونے والی اس پہلی ملاقات کے بارے میں تیار کروانے والا تھا، وہ جانتا تھا اپنے آفس میں پہنچ کر میجر لطیف بھی اسی جوش و خروش سے اس میٹنگ کے بارے میں رپورٹ تیار کرنے کا سوچ رہا ہوگا۔
٭٭٭