Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”جنید کے گھر والے کل کھانے پر آرہے ہیں۔ ” شام کی چائے پر نانو نے علیزہ کو بتایا۔
علیزہ نے معمول کے انداز میں انہیں دیکھا، جنید کے گھر والوں کا ان کے یہاں کھانے پر آنا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ نانو اکثر انہیں اپنے یہاں مدعو کرتی رہتی تھیں اور خود جنید کی امی بھی ان دونوں کو اپنے یہاں کھانے پر بلاتی رہتی تھیں اس لیے علیزہ نے کسی خاص ردعمل کا اظہار کیے بغیر چائے پیتے ہوئے سر ہلا دیا۔
”شادی کی تاریخ طے کرنا چاہ رہی ہیں وہ…اسی سلسلے میں آرہے ہیں۔” نانو نے اپنی بات مکمل کی۔
وہ چائے پیتے پیتے رک گئی۔ ”شادی کی تاریخ؟” اس نے تعجب سے کہا۔
نانو کو اس کی حیرت پر حیرت ہوئی۔ ”ایک سال گزر چکا ہے علیزہ! وہ لوگ منگنی کے ایک سال بعد ہی شادی کرنا چاہتے تھے۔”
نانو نے جیسے اسے کچھ یاد دلایا۔ علیزہ نے ہاتھ میں پکڑا ہوا کپ میز پر رکھ دیا۔
”مگر جنید نے تو مجھ سے اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کی۔”
”اس نے ضروری نہیں سمجھا ہوگا یہ کوئی غیر معمولی بات تو نہیں ہے۔” نانو نے قدرے بے نیازی سے چائے کا ایک کپ بناتے ہوئے کہا۔



”پھر بھی اسے مجھ سے بات تو کرنا چاہیے تھی یا پھر فری ہی کچھ بتا دیتی۔ میں پچھلے ہفتے ہی تو ان کے گھر پر تھی اور پھر ابھی پرسوں میری اس سے بات ہوئی ہے۔” علیزہ نے جیسے خود کلامی کی۔
”اب کل کھانے پر آرہے ہیں تو تم خود ہی اس سے پوچھ لینا کہ کیوں اس نے تمہیں نہیں بتایا لیکن مارچ میں وہ شادی کرنا چاہ رہے ہیں، اس کے بارے میں تو میں نے تمہیں چند ماہ پہلے بتایا تھا۔” نانو کو اچانک یاد آیا۔
علیزہ نے کچھ کہے بغیر چائے کا کپ اٹھا لیا۔ ”اچھا ہی ہے، جتنی جلدی میں اس ذمہ داری سے بھی فارغ ہو جاؤں اتنا ہی اچھا ہے۔” نانو نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”کیا شادی چند ماہ آگے نہیں ہو سکتی؟” علیزہ نے اچانک کہا۔
”چند ماہ آگے مگر کیوں؟” نانو نے کچھ چونک کر پوچھا۔ وہ کچھ جواب نہیں دے سکی۔
”چند ماہ آگے کس لیے؟” نانو نے ایک بار پھر اپنی بات دہرائی۔
”بس ایسے ہی۔۔۔”اس سے کوئی جواب نہیں بن پایا۔
”کوئی مناسب بات تو نہیں ہو گی یہ۔ وہ لوگ شادی آگے کرنے کی وجہ جاننا چاہیں گے۔”
”آپ کہہ دیں کہ ابھی ہم تیاری کر رہے ہیں۔” علیزہ کی بات پر نانو مسکرائیں۔
”جنید کی امی جانتی ہیں کہ ہماری تیاری مکمل ہو چکی ہے۔”
”وہ کیسے جانتی ہیں؟”
”مجھ سے ہر دوسرے تیسرے دن رابطہ ہوتا رہتا ہے ان کا، میں خود انہیں بتاتی رہتی ہوں۔” نانو نے کہا۔
”آپ بھی نانو…بس۔۔۔” علیزہ سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔
”کوئی دوسرا بہانا بھی تو کر سکتی ہیں۔” علیزہ نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔
”ابھی مجھے ثمینہ اور سکندر سے بات کرنی ہے۔ دیکھنا ہے کہ ثمینہ کب باہر سے آ سکتی ہے پھر سکندر کی مصروفیات کا دیکھنا ہے۔ ڈیٹ تو اس کے بعد ہی طے کی جائے گی، نانو نے کہا۔
”اور اگر ممی نہیں آ سکیں یا انہوں نے ڈیٹ آگے کرنے کو کہا تو…؟” علیزہ کو اچانک خیال آیا۔
”نہیں ثمینہ ایسا کچھ نہیں کہے گی۔ میں اس سے پوچھ کر ہی اس کی سہولت کے مطابق تاریخ طے کروں گی اور اس کے نہ آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیا وہ اپنی بیٹی کی شادی پر نہیں آئے گی۔” نانو نے اس کے قیاس کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا۔
”پھر بھی نانو…بہتر ہوتا اگر آپ چند ماہ اور انتظار کر لیتیں۔”
”آخر کس لیے؟”
”بس ویسے ہی، جنید کو تھوڑا اور جان لیتی میں۔ ” اس نے چائے کا سپ لیتے ہوئے کہا۔



”میں تو سمجھتی ہوں کہ تم جنید کو اچھی طرح جان چکی ہو۔ ایک سال کافی ہوتا ہے کسی کو جاننے اور پرکھنے کے لیے اور جنید اس طرح کا لڑکا تو نہیں کہ اس کے بارے میں اتنا زیادہ محتاط ہونا پڑے۔” نانو نے قدرے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
”میرا خیال تھا تمہاری اس کے ساتھ خاصی اچھی انڈر سٹینڈنگ ہو چکی ہے۔”
”ہاں وہ اچھا ہے مگر انڈر سٹینڈنگ۔۔۔” وہ بات کرتے کرتے رک گئی۔
”انڈر سٹینڈنگ کیا؟’ ‘ نانو نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں کہا۔
”بعض دفعہ مجھے لگتا ہے اس کے ساتھ میری کوئی انڈر سٹینڈنگ نہیں ہے۔” علیزہ نے قدرے الجھے ہوئے انداز میں چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔
”یہ کیا بات ہوئی؟” نانو بھی الجھ گئیں۔
”تم نے پہلے کبھی جنید کے بارے میں اس طرح کی بات نہیں کی۔ تم تو ہمیشہ اس کی تعریف ہی کرتی رہی ہو۔”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!