”آپ جنید کو اتنا زیادہ کیسے جاننے لگی ہیں؟” علیزہ نے اچانک ان سے پوچھا۔
”شروع سے ہی جانتی ہوں۔” نانو نے بے ساختہ کہا۔
”شروع سے ہی جانتی ہیں؟” علیزہ نے کچھ چونک کر انہیں دیکھا مگر آپ کی بات چیت تو جنید اور اس کے خاندان سے اس پر پوزل کے آنے کے بعد ہوئی ہے۔”
”ہاں میرا مطلب ہے کہ ایک سال سے جب سے وہ یہاں آنے لگا ہے۔ شروع سے ہی وہ بڑی سلجھی ہوئی عادتوں کا مالک ہے۔” نانو نے جلدی سے تصحیح کی۔
”ایک سال میں اس نے یہاں چند گھنٹوں سے زیادہ وقت نہیں گزارا اور چند گھنٹے کیا کسی آدمی کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں؟” اس نے سنجیدگی سے نانو سے پوچھا۔
”ہر آدمی کے بارے میں نہیں مگر کچھ لوگوں کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنے کے لیے تو چند منٹ بھی کافی ہوتے ہیں۔” نانو نے اسی کے انداز میں کہا۔
”میں نے یہ نہیں کہا کہ جنید برا ہے۔ میں صرف یہ کہہ رہی ہوں میں اسے سمجھ نہیں پاتی۔” علیزہ نے مدافعانہ انداز میں کہا۔
”بعض دفعہ تو مجھے تمہیں سمجھنے میں بھی دشواری ہوتی ہے اور بعض دفعہ تم بھی مجھے سمجھ نہیں پاتی ہو گی۔” نانو نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ”اس کے باوجود ہم دونوں کی آپس میں خاصی انڈر سٹینڈنگ ہے یا پھر تم یہ سمجھتی ہو کہ تمہاری میرے ساتھ بھی انڈر سٹینڈنگ نہیں ہے۔”
علیزہ ان کی بات پر صرف مسکرائی۔ اس نے کچھ کہا نہیں ورنہ وہ کہنا چاہتی تھی کہ ہاں وہ ان کے ساتھ بھی بات کرتے ہوئے اکثر انہیں اپنی بات اپنا نقطہ نظر سمجھانے میں ناکام رہتی ہے۔
”چند ماہ اس کے ساتھ اور گزارنے کے بعد اگر تمہیں یہ احساس ہونا شروع ہو گیا کہ وہ تمہارے لیے موزوں نہیں ہے تو پھر کیا کرو گی؟” نانو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”خاص طور پر اس صورت میں جب تم اس کے لیے اپنے دل میں ایک نرم گوشتہ بھی پیدا کر چکی ہو۔ کیا منگنی توڑ دو گی اور کیا یہ فیصلہ اس وقت زیادہ مشکل نہیں ہوگا؟”
نانو نے جیسے ایک آپشن اس کے سامنے حل کرنے کے لیے رکھتے ہوئے کہا۔
”لمبی کورٹ شپ میں ایسے مسائل تو ہوتے ہی ہیں۔ جنید مجھے بتا رہا تھا پچھلے چند ماہ میں تم دونوں کے درمیان کچھ اختلافات ہوتے آرہے ہیں۔”
علیزہ نے چونک کر انہیں دیکھا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ جنید اس طرح کی بات نانو سے کر سکتا تھا۔
”اس نے کیا بتایا ہے آپ کو؟”
”کچھ زیادہ نہیں، بس وہ یہ کہہ رہا تھا کہ تم اس سے قدرے ناراض رہنے لگی ہو۔”
”اس نے آپ کو یہ نہیں بتایا کہ میں ناراض کیوں رہنے لگی ہوں؟” علیزہ نے کچھ ناگواری سے پوچھا۔
”ہاں وہ کہہ رہا تھا کہ تم کو اس نے عمر کے حوالے سے خبریں شائع کرنے سے منع کیا تھا اس پر تم۔۔۔” علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”حالانکہ عمر کے خلاف کوئی بھی خبر میں نے شائع نہیں کی تھی۔”
”تمہاری دوست صالحہ نے شائع کی تھی۔ تم نے اس کو منع بھی تو نہیں کیا۔” نانو نے کچھ شاکی نظروں سے اسے دیکھا۔