”میں اسے منع کیوں کرتی۔ آپ اس بارے میں میرے پوائنٹ آف ویو کو اچھی طرح جانتی ہیں۔” علیزہ نے کہا۔
”جو بھی تھا مگر مجھے جنید کی بات بالکل بھی Unreasonable (نامعقول) نہیں لگی۔ اس کی جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو تمہیں اسی طرح سمجھاتا، سڑکوں پر پوسٹر اور بینر لے کر کھڑے ہونے کے لیے اور بہت سے لوگ ہوتے ہیں ہماری فیملیز کی عورتوں کو ایسے کاموں میں شریک نہیں ہونا چاہیے اور پھر اپنے ہی خاندان کے ایک فرد کے خلاف…پھر اگر اس پر اس نے کسی ردعمل کا اظہار کیا تو وہ یہ کرنے میں بالکل Justified(حق بجانب) تھا۔ کم از کم یہ ایسی بات نہیں تھی جس پر تم ناراض ہوتی پھرتیں۔” نانو نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”اس کی آکورڈ پوزیشن کا اندازہ کرنا چاہیے تھا تمہیں، اس کی فیملی کیا سوچتی تمہارے بارے میں اور صرف کلوز فیملی ممبرز ہی نہیں دوست احباب کو بھی خاصی وضاحتیں دینی پڑی ہوں گی اسے لوگوں کے سامنے اور اس پر تمہاری ناراضی۔” نانو نے اسے بولنے کا موقع دیئے بغیر کہا۔ ”پھر اگر ان باتوں پر کوئی اختلاف رائے ہوتا ہے تو ٹھیک ہی ہوتا ہے۔ اگر یہ وہ بات ہے جس پر تم اس کے رویے کو سمجھ نہیں سکتیں تو بہتر ہے تم خود اپنے رویے پر ایک بار نظر ثانی کرو۔ ہو سکتا ہے تم اس کے اس رویے کو سمجھ سکو۔
تمہیں اگر یہ لگتا ہے کہ اسے تم سے زیادہ تمہاری فیملی ممبرز کی پروا ہے اور ان کی عزت کی فکر رہتی ہے تو تمہیں تو خوش ہونا چاہیے۔ کم از کم اس معاملے میں اس کا رویہ نامناسب نہیں ہے۔” نانو نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔
”اور آپ یہ کہہ رہی ہیں کہ اس نے آپ کو زیادہ باتیں نہیں بتائیں۔ مگر میرا خیال ہے کہ وہ آپ کو سب کچھ خاصی تفصیل سے بتاتا رہا ہے۔” علیزہ نے ان کی بات کے جواب میں کہا۔
”تمہیں یہ بات بھی بری لگی ہے؟” نانو نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”کیا نہیں لگنی چاہیے؟” اس نے جواباً سوال کیا۔
”نہیں لگنی چاہیے کیونکہ اس نے سب کچھ میرے استفسار پر بتایا تھا۔ میں جاننا چاہ رہی تھی کہ آخر تم اس سے اکھڑی اکھڑی کیوں رہنے لگی ہو۔”
نانو نے اس کی بات کے جواب میں جیسے کچھ وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”اور پھر یقیناً آپ نے اس ساری صورت حال کا حل شادی کی صورت میں نکالا ہوگا۔”
”نہیں یہ حل میں نے پیش نہیں کیا۔ میں نے صرف تجویز دی تھی اسے کہ بہتر ہے تم دونوں اب شادی کر لو۔ اس نے اپنے گھر والوں سے بات کی…ان کی بھی یہی خواہش تھی اس لیے۔”
علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔ ”آپ بھی نانو بعض دفعہ حد کر دیتی ہیں۔” اس کے لہجے میں خفگی تھی۔
”تو کیا مجھے یہ انتظار کرنا چاہیے کہ کب تم لوگوں کے اختلافات اور بڑھیں اور تلخیوں اور کشیدگی کے بعد رشتہ ختم ہونے کی نوبت آن پہنچے۔”
”ایسا کبھی نہیں ہونا تھا۔”
”کیوں تم یہ کس طرح کہہ سکتی ہو؟”
”بس کہہ سکتی ہوں۔” اس نے ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا موبائل اٹھاتے ہوئے کہا۔
”پھر وہ لوگ کل آرہے ہیں تو میں انہیں تاریخ دے دوں گی۔” نانو نے جیسے اسے خبردار کرتے ہوئے کہا۔
”دے دیں۔ آپ کی اتنی لمبی چوڑی پلاننگ اور سکیمنگ کو میں برباد نہیں کروں گی۔” علیزہ نے کچھ ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
نانو اس کی بات پر مسکرا دیں۔
”تم شہلا کو بھی کل بلوا لینا۔”
”بلوا لوں گی، وہ ویسے بھی یہاں کا چکر لگانے کا سوچ رہی ہے۔” اس نے لاؤنج سے نکلنے سے پہلے کہا۔
”بہتر ہے کہ کل تم آفس نہ جاؤ۔ گھر پر ہی رہو۔’ ‘ نانو نے اسے کہا۔
”نہیں کل آفس تو مجھے جانا ہے مگر میں وہاں سے جلدی آ جاؤں گی۔”
”جلدی…کس وقت…؟”
”دوپہر کو لنچ کے بعد آ جاؤں گی بلکہ شاید لنچ آور کے دوران ہی۔” اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”ہاں ٹھیک ہے۔ یہ بہتر رہے گا۔” نانو نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے کہا۔
٭٭٭