اگلے روز شام کو جنید کے گھر والے ان کے ہاں آئے تھے۔ نانو، ثمینہ اور سکندر سے پہلے ہی فون پر بات کر چکی تھیں دونوں نے انہیں اگلے ماہ کی کوئی بھی تاریخ طے کر دینے کا کہا تھا۔ دونوں فیملیز نے کھانے کے بعد باہمی مشورے سے تاریخ طے کر لی۔
جنید اپنے گھر والوں کے ساتھ نہیں آیا تھا۔ رات بارہ بجے کے بعد جب اس کے گھر والے واپس گئے تو اس کے کچھ دیر بعد اس نے علیزہ کو فون کیا۔ اسی وقت سونے کے لیے اپنے کمرے میں گئی تھی۔
”میں صرف مبارکباد دینے کے لیے کال کر رہا ہوں۔” رسمی سلام و دعا کے بعد اس نے علیزہ سے کہا۔ اس کا لہجہ خاصا خوشگوار تھا۔
”تھینکس مگر تین دن پہلے جب ہم لوگ ملے تھے تو آپ کو مجھے بتانا چاہیے تھا۔” علیزہ نے کہا۔
”کس چیز کے بارے میں؟” جنید نے قدرے بے نیازی سے کہا۔
”یہی کہ آپ کے گھر والے تاریخ طے کرنے کے لیے ہمارے گھر آنے والے ہیں۔”
”میں نے سوچا تمہیں سرپرائز دوں۔”
”میں سوچ رہی تھی آپ کہیں گے کہ آپ کو اس کے بارے میں کچھ خبر ہی نہیں تھی۔”
وہ دوسری طرف ہنسنے لگا ”نہیں…میں کوئی لڑکی نہیں ہوں کہ اسے آخری لمحوں تک کچھ پتا ہی نہ ہو اور نہ ہی یہ کوئی فلم ہے۔ ظاہر ہے میری شادی کی تاریخ مجھ سے پوچھے بغیر کیسے طے کی جا سکتی ہے۔”
”ہاں آپ سے پوچھے بغیر کیسے طے کی جا سکتی ہے۔ وہ تو صرف مجھ سے پوچھے بغیر طے کی جا سکتی ہے۔” علیزہ نے شکوہ کیا۔
”یار! بتا تو رہا ہوں ، تمہارے لیے سرپرائز تھا۔ اچھا سرپرائز نہیں تھا کیا؟” وہ اسی طرح شگفتگی سے بولتا رہا۔
”بہار کے موسم میں شاید میں واحد آدمی ہوں گا جو اتنی خوشی خوشی اپنی رضامندی کے ساتھ آزادی کے بجائے غلامی قبول کروں گا۔ تمہیں تو میرے اس جذبے کو سراہنا چاہیے۔” اس بار اس کے لہجے میں مصنوعی سنجیدگی تھی۔ How very magnanimous(کتنا باحوصلہ ہوں) غلامی قبول کروں گا۔”
”کیسی غلامی؟”
”نہیں شاید قید کہتے ہیں اسے…ہے نا؟” جنید نے فوراً اپنے جملے میں تصحیح کرتے ہوئے کہا۔
”جی نہیں قید بھی نہیں کہتے۔”
”اچھا تو پھر کیا کہتے ہیں؟”
”میرا خیال ہے اسے بس شادی ہی کہتے ہیں۔”
”واقعی؟” اس بار دوسری طرف سے کچھ مزید حیرانی کا اظہار کیا گیا۔
”جی واقعی۔۔۔” وہ اس کے انداز پر مسکرائی۔
”اس میں قید یا غلامی والی کوئی بات نہیں ہوتی؟” سنجیدگی سے تصدیق کی گئی۔
”نہیں کم از کم مردوں کے لیے ایسی کوئی بات نہیں ہوتی۔ اگر ایسا کچھ ہو بھی تو خواتین کے لیے ہوتا ہے۔” علیزہ نے جتانے والے انداز میں کہا۔
”اچھا…! مگر میرے دوستوں کا تجربہ تو اس کے برعکس ہے۔” وہ ابھی بھی اسی موڈ میں بظاہر بڑی سنجیدگی کے ساتھ گفتگو کر رہا تھا۔
”معجزات بھی ہوتے ہیں مگر زیادہ تر نہیں، آپ کے دوستوں کے ساتھ کوئی معجزہ ہوا ہوگا۔” علیزہ اس کی گفتگو سے محظوظ ہو رہی تھی۔
”ہو سکتا ہے میرے معاملے میں بھی ایسا کوئی معجزہ ہو جائے؟” دوسری طرف سے اپنے خدشے کا اظہار کیا گیا۔
”ایسے معجزوں کے لیے خواتین میں کچھ کشف اور کرامات کا ہونا ضرور ہے اور میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں ان دونوں چیزوں سے عاری ہوں۔”
”آپ سے یہ جان کر خاصی ہمت بندھی ہے میری، خاصا حوصلہ ہوا ہے مجھے یعنی میری آزادی پر کوئی حرف نہیں آئے گا۔”