امر بیل ۔قسط۔ ۲۳۔ عمیرہ احمد
”سر! میجر لطیف کور کمانڈر کا بیٹا ہے۔” بابر جاوید اگلے دن عمر جہانگیر کو میجر لطیف کے کوائف سے آگاہ کر رہا تھا۔ عمر نے بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔
”دو ماہ پہلے پروموشن ہوئی ہے اس کی۔” بابر جاوید نے مزید بتایا۔ وہ پچھلے پندرہ منٹ سے عمر جہانگیر کو اس کی ہدایات کے مطابق میجر لطیف کے بارے میں بتا رہا تھا اور عمر کی تشویش میں اضافہ ہو رہا تھا۔ مضبوط فیملی بیک گراؤنڈ کا مطلب اس کے لیے پریشانی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ میجر لطیف کے طور طریقوں سے یہ اندازہ تو اسے پہلے ہی ہو چکا تھا کہ وہ کسی سیدھے سادے عام سے گھرانے کا سپوت نہیں تھا…اس کی گردن کے سیرے میں اسی طرح کے خم تھے۔ جس طرح کے عمر جہانگیر میں تھے اسی لیے عمر جہانگیر نے اس کے طور طریقوں سے یہ اندازہ لگا لیا تھا اور یقیناً عمر جہانگیر کے بارے میں یہ اندازہ میجر لطیف بھی لگا چکا تھا۔ ایسے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کو بڑی آسانی سے پہچان جاتے ہیں مگر اس کے باوجود کسی موہوم سی امید پر عمر نے میجر لطیف کے بیک گراؤنڈ کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تھی۔
مگر جو تفصیلات بابر جاوید لایا تھا، وہ خاصی حوصلہ شکن تھیں۔ اس کا پورا بائیو ڈیٹا آرمی سے شروع ہو کر آرمی پر ہی ختم ہو جاتا تھا۔
Babar we have to be very careful (ہمیں بہت محتاط رہنا چاہیے)
عمر نے اس کی تمام باتیں سننے کے بعد کہا۔ ” فی الحال ہمارے پاس اس آدمی کے خلاف کچھ نہیں ہے جس کو ہم استعمال کر سکیں، اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہم قدرے محتاط ہو جائیں۔ میں نہیں چاہتا اسے آتے ہی میرے اوپر کوئی edge حاصل ہو جائے۔ عمر نے بابر کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔
”سر میں نے پہلے ہی تمام پولیس سٹیشن کے انچارجز کو وارن کر دیا ہے، خود ریکارڈ چیک کرنا شروع کر دیا ہے میں نے۔ پولیس پٹرولنگ کو بھی دیکھ رہا ہوں۔ انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو کوئی شکایت نہیں ہو گی۔” بابر جاوید نے عمر کو یقین دلاتے ہوئے کہا۔
”مجھے تو کوئی شکایت ہو یا نہ ہو، میں یہ چاہتا ہوں کہ آرمی مانیٹرنگ ٹیم تک میری کوئی شکایت نہ پہنچے۔” عمر نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔ ”اور ان سب لوگوں کو بتا دو کہ مجھ تک ان کی کرپشن کا کوئی معاملہ نہیں آنا چاہیے۔ اگر مجھ تک اس طرح کا کوئی معاملہ آیا تو میں کچھ دیکھے یا سنے بغیر Suspend (معطل) کر دوں گا اور اس معاملے میں کوئی وضاحت قبول نہیں کروں گا۔” عمر نے بابر جاوید کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا۔
”خود تم بھی اپنے ”کھانے پینے” کا سلسلہ کچھ دیر کے لیے موقوف کر دو…تمہارا بینک بیلنس خاصی اچھی حالت میں ہے۔ ابھی کافی لمبا عرصہ تم اس میں مزید اضافے کے بغیر وقت گزار سکتے ہو۔”
عمر جہانگیر اب خود بابر جاوید کی بات کرنے لگا ، جس کے چہرے پر ایک کھسیانی مسکراہٹ نمودار ہو گئی تھی۔
”یس سر!” اس نے اسی انداز میں اپنی خفت کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
”خالی یس سر نہیں میں واقعی تمہیں بتا رہا ہوں۔ اس بارے میں تمہیں بھی نہیں بخشوں گا۔ پہلے تو تمہارے بارے میں جتنی شکایتیں آتی رہی ہیں، انہیں نظر انداز کرتا رہا ہوں مگر اس بار میرے لیے یہ ممکن نہیں ہوگا، یہ میں تمہیں صاف صاف بتا رہا ہوں۔”
عمر جہانگیر کا لہجہ بابر جاوید کو خلاف معمول سنجیدہ لگا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ آج کل وہ جس قسم کی مصیبت میں پھنسے ہوئے تھے اس میں یہ احتیاطی اقدامات عمر جہانگیر کی مجبوری تھے، اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ شاید آرمی مانیٹرنگ کمیٹی کی موجودگی کے بغیر عمر جہانگیر اس قسم کی کوئی ہدایات دیتا اور ان پر عمل کروانے کی کوشش کرتا تو اس کا پورا ماتحت عملہ اس کے خلاف ایک طوفان کھڑا کر دیتا، عمر جہانگیر کو اس سے پہلے اپنی پوسٹنگز میں کچھ اس طرح کے تلخ تجربات ہو چکے تھے، جب اس نے اپنے ماتحت عملے پر کچھ سختی کرنے کی کوشش کی اور اس کا نتیجہ اس کے لیے اچھا نہیں نکلا تھا۔ خود اس کا اپنا پی اے اس کے ممکنہ اقدامات کے بارے میں تمام اطلاعات اس سے نیچے عملے کو پہنچاتا رہا تھا۔ اس کے علاقے کے Political big wigs کو اس کے تمام فیصلوں اور اس کی ممکنہ نقل و حرکت کے بارے میں تمام اطلاعات ہوتی تھیں۔ نتیجہ اس کے ہر ریڈ کی ناکامی کی صورت میں نکلتا تھا۔ صورت حال کچھ اس طرح کی بن چکی تھی کہ اس کے شہر کی پوری پولیس ایک ڈی ایس پی کی قیادت میں ایک طرف تھی اور وہ اکیلا ایک طرف تھا۔ بظاہر ڈی ایس پی اور باقی تمام پولیس اس کے احکامات پر مستعدی سے عمل کرتے تھے مگر اندرون خانہ اس کے احکامات کی افادیت کو زائل کرنے کے لیے وہ اس کے احکامات آنے سے پہلے ہی سرگرم عمل ہو چکے ہوتے تھے۔ مقامی اخبارات، پولیس کے سربراہ اور اس کے ”ایڈونیچرز” کی مضحکہ خیز کہانیوں سے بھرا ہوتا جس میں سچائی کم اور مرچ مسالا زیادہ ہوتا تھا، ابتدائی دو ماہ میں انہوں نے عمر جہانگیر کو زچ کر دیا تھا۔ اس وقت عباس حیدر اس کے کام آیا تھا وہ سروس میں اس سے پانچ سال سینئر اور تمام داؤ پیچ سے اچھی طرح واقف تھا۔
”سروس میں تمہارے بہترین ساتھی تمہارا ڈرائیور، تمہارے گارڈ، تمہارا پی اے اور تمہارا آپریٹر ہوتے ہیں اور کسی بھی پولیس سٹیشن کا ایس ایچ او تمہارے ڈی ایس پی اور اے ایس پی نہیں۔”
عمر عباس نے اسے گُر سکھانے شروع کیے تھے۔