Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”ٹھیک ہے، تم میرے باپ کے ذریعے اسے چھڑوا کر دکھاؤ۔” عمر نے اس کا جواب سنے بغیر فون بند کر دیا اور پھر آپریٹر سے اس پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او سے بات کروانے کے لئے کہا …جہاں کرنل حمید کا بیٹا بند تھا۔
”سر ! بات کریں۔” آپریٹر نے کچھ دیر بعد فون پر اس سے کہا۔
”آج تم نے بارہ بجے کے قریب کسی کرنل حمید کے بیٹے ارمغان کو پکڑا ہے۔”
عمر نے انسپکٹر عاطف سے پوچھا، وہ اسے ذاتی طور پر جانتا تھا اور اس بات سے واقف تھا کہ وہ عام پولیس والوں کے بر عکس بہت ایماندار تھا۔ وہ ایک سال سے اس پولیس اسٹیشن میں کام کر رہا تھا اور صرف اسی کا پولیس اسٹیشن وہ واحد پولیس اسٹیشن تھا جس کے بارے میں عمر کو سب سے کم شکایات ملتی تھیں۔ اسی لئے اسے کرنل حمید سے بات کرتے ہوئے بھی یقین تھا کہ اگر وہ انسپکٹر عاطف کے پولیس اسٹیشن پر ہے تو اس کا واقعی یہ مطلب تھا کہ اس نے کچھ غلط کیا تھا۔
”جی سر ! پکڑا ہے۔” عاطف نے مودب انداز میں کہا۔
”کس لئے؟”



”سر ! وہ گاڑی چلا رہا تھا جبکہ اسکی عمر صرف پندرہ سال ہے پھر اس نے تیز رفتاری سے گاڑی چلاتے ہوئے ایک دوسری گاڑی سے نکلنے والے آدمی کو ٹکر مار دی۔ اسی آدمی کے رشتہ داروں نے گاڑیوں کا تعاقب کر کے اسے پکڑا، اتفاقاً وہاں پولیس موبائل آ گئی اور انہوں نے اسے بچا لیا ورنہ شاید وہ لوگ تو اسے وہیں مار دیتے۔ ہم نے شک پڑنے پر جب اس کا چیک اپ کروایا تو پتہ چلا کہ وہ شراب پئے ہوئے تھا …اس زخمی…کی حالت خاصی نازک ہے اور اس کے رشتہ دار ابھی بھی یہاں پولیس اسٹیشن پر بیٹھے ہیں۔ وہ بہت مشتعل ہیں کیونکہ یہ لڑکا ان سے کہتا رہا ہے کہ وہ کرنل کا بیٹا ہے کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا اور ان لوگوں کو شک ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے گا۔” عاطف نے اسے تفصیل بتائی۔
”مگر کرنل حمید تو مجھ سے کہہ رہا تھا کہ گاڑی اس کا ڈرائیور چلا رہا تھا جسے تم لوگوں نے پکڑا ہی نہیں۔” عمر نے کہا۔
”سر ! گاڑی میں اس لڑکے کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا، میں نے آپ کو بتایا کہ اسے پکڑا بھی ان ہی لوگوں نے ہے، اگر اس کا ڈرائیورساتھ ہوتا تو وہ اسے کس طرح جانے دیتے۔ وہ اسے بھی اسی طرح پیٹتے جس طرح انہوں نے اسے پیٹا ہے۔”
”زیادہ چوٹیں تو نہیں آئیں اس لڑکے کو؟”
”نو سر …اتنا زیادہ نہیں پیٹا۔”
”تم نے ایف آئی آر درج کر لی ہے؟”
”سر ! وہ تو اسی وقت کر لی تھی کیونکہ وہ لوگ وہیں سے پولیس اسٹیشن آئے تھے۔”
”کرنل حمید نے تمہیں فون کیا تھا؟”
”سر انہوں نے فون کیا تھا، وہ بڑے مشتعل تھے اور اپنے بیٹے کو چھوڑنے کے لئے کہہ رہے تھے۔ مگر میں نے انکار کر دیا کیونکہ میرے لئے ایسا ممکن ہی نہیں تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ آپ سے بات کریں یا پھر اپنے وکیل سے۔”
”اس نے مجھ سے ابھی فون پر بات کی تھی، مجھے حیرانی ہے کہ وہ خود پولیس اسٹیشن اپنے بیٹے کو چھڑوانے کیوں نہیں گیا۔”
”سر ! وہ لاہور سے بات کر رہے تھے میرا خیال ہے کہ وہ ابھی چند گھنٹوں تک یہاں آ جائیں گے اور پھر پولیس اسٹیشن بھی آئیں گے۔”



”تم اس لڑکے کو اپنی کسٹڈی میں رکھو مگر مارنے پیٹنے کی ضرورت نہیں …اگر اسے کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ بھی دینا اور کھانا وغیرہ بھی کھلانا …اس کی گاڑی آرمی کی تھی؟” عمر کو ہدایات دیتے ہوئے اچانک خیال آیا۔
”نہیں سر …سرکاری گاڑی نہیں تھی، کرولا تھی۔”
”کون سا ماڈل؟”
”سر 2000 XE ۔”
”اپنی تھی۔”
”یس سر اس کی اپنی ہے۔”
عمر نے بھنویں اچکائیں۔ وہ کرنل یا تو کسی بہت با اثر فیملی سے تعلق رکھتا تھا یا پھر کسی نہ کسی طرح خاصا مال بنا رہا تھا۔
فون بند کر کے اس نے اپنے پی اے کو بلوایا اور اسے کرنل حمید کے کوائف سے آگاہ کرتے ہوئے اس کے بارے میں معلومات لینے کیلئے کہا۔
”سر ! کرنل حمید کو ہر کوئی جانتا ہے۔” پی اے نے کرنل حمید کا نام سنتے ہی کہا۔ ”یہ یہاں اس کی پوسٹنگ کا آخری سال ہے، وہ رینجرز میں ہے بارڈرز ایریا میں اسمگلنگ کا بہت سا مال اس کی وجہ سے آسانی سے آ جاتا ہے۔ بہت راشی آدمی ہے وہ۔”
”خاندان کیسا ہے اس کا؟”
”سر ! خاندان خاصا اثر و رسوخ والا ہے۔ مگر ایسا نہ بھی ہوتا تب بھی یہ آدمی اتنا چلتا پرزہ ہے کہ اسی طرح عیش کر رہا ہوتا یہ اس کا ہوم سٹی بھی ہے۔ یہاں ویسے بھی اس کے جاننے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ صنعت کاروں میں بھی خاصا اثر و رسوخ ہے اس کا، یہ بہت سوشل ہے۔” اس کے پی اے نے اسے مزید معلومات دیں۔
”بس اب تم جاؤ۔ عمر نے اسے جانے کے لئے کہا۔ پی اے ابھی کمرے سے نکلا ہی تھا جب آپریٹر نے اسے کرنل حمید کے ایک بار پھر آن لائن ہونے کے بارے میں بتایا۔
”تم نے پتہ کروایا ہے میرے بیٹے کا؟” کرنل حمید نے عمر کی آواز سنتے ہی کہا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!