”تمہارے بیٹے کے خلاف چار الزامات کے تحت ایف آئی آر درج ہوئی ہے …لائسنس کے بغیر گاڑی چلانے کا الزام ایک آدمی کو اپنی گاڑی سے زخمی کرنے اور موقع واردات سے فرار ہونے کا الزام …شراب پی کر گاڑی چلانے کا الزام اور پولیس کے اہلکاروں کو گالیاں دینے اور ان کے ساتھ بد تمیزی کا الزام …بہتر ہے تم کسی وکیل کا بند و بست کر لو، کیونکہ اس کی رہائی کسی وکیل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔”
”میں نے تم سے کہا تھا کہ میرا بیٹا گاڑی نہیں چلا رہا تھا۔”
”اس زخمی کے رشتہ داروں کے اور پولیس کے مطابق گاڑی میں اس وقت تمہارے بیٹے کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔”
”وہ لوگ بکواس کر رہے ہیں، جھوٹ بول رہے ہیں۔” کرنل حمید غرایا۔
”مان لیا مگر اس کے چیک اپ کے بعد رپورٹ کے مطابق وہ نشے کی حالت میں تھا۔ یہ جھوٹ نہیں ہو سکتا۔”
”میں یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں کہ میرے بیٹے نے شراب پی ہے۔ تم لوگ یہ سب اسے اور مجھے پھانسنے اور بلیک میل کرنے کے لئے کر رہے ہو۔” کرنل حمید اس کی بات پر اور مشتعل ہوا۔ ”تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ تم اسے رہا کر دو۔”
”میں کسی صورت اسے نہیں چھوڑ سکتا …خاص طور پر اس صورت میں جب اس پر اتنے سنگین الزامات ہیں تمہارے لئے بہتر یہی ہے کہ تم کسی وکیل کا بند و بست کرو اس کے لئے۔”
”اگر تم اسے نہیں چھوڑو گے تو میں کسی اور کے ذریعے اسے چھڑوالوں گا …میں اپنے بیٹے کو پولیس اسٹیشن میں رات گزارنے نہیں دوں گا۔” کرنل حمید نے اسے دھمکایا۔
”میں دیکھوں گا کہ تمہارا بیٹا پولیس اسٹیشن کے لاک اپ سے کسی وکیل کی مدد کے بغیر کیسے باہر آتا ہے۔”
عمر جہانگیر نے دوسری طرف سے لائن کو ڈس کنکٹ ہوتے سنا۔
کچھ دیر ریسیور ہاتھ میں پکڑے وہ اس مصیبت کے بارے میں سوچتا رہا جو اس نے مول لی تھی۔ اسے کرنل حمید کے اگلے اقدام کے بارے میں کچھ اندازہ نہیں تھا …وہ آرمی مانیٹرنگ ٹیم سے رابطہ کرے گا یا پھر کوئی اور دروازہ کھٹکھٹائے گا، اس کو اس کے بارے میں یقین نہیں تھا مگر اسے اس بارے میں پورا یقین تھا کہ اسے عنقریب ہیڈ کوارٹر میں ایک اور پیشی کے لئے حاضر ہونا تھا اور وہ اس پیشی کے لئے ذہنی طور پر تیار تھا۔ اگر کرنل حمید اس کے ساتھ اس لہجے میں بات نہ کرتا جس لہجے میں اس نے کی تھی تو عمر یقیناً اس معاملے کو دوسرے طریقے سے ہی ہینڈل کرتا۔ وہ پوری کوشش کر تا کہ اس کا بیٹا اس معاملے سے بری ہو جائے …مگر یہ کرنل حمید کا تحکمانہ انداز تھا جس نے اسے مشتعل کر دیا تھا۔
کرنل حمید سے گفتگو کرنے کے بعد وہ اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا۔ شام کے قریب وہ آفس سے نکلنے والا تھا جب انسپکٹر عاطف کی کال اسے موصول ہوئی تھی۔
”ہاں عاطف کیا بات ہے؟” اسے اندازہ تھا کہ اس نے عمر کو فون کرنل حمید کے بیٹے کے لئے ہی کیا ہو گا۔
” میں نے کرنل حمید کے بیٹے کو چھوڑ دیا ہے۔” دوسری طرف سے عاطف کے جملے پر عمر ایک دم بھڑک اٹھا۔
”کس کے کہنے پر چھوڑا ہے تم نے اسے جب میں نے تم سے کہا تھا کہ اسے اپنی کسٹڈی میں رکھو تو پھر تم نے اسے کیوں چھوڑا۔” عمر نے تیز آواز میں اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
”سر ! میں مجبور تھا کرنل حمید یہاں آئے تھے اور ۔۔۔” عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔
”وہ آیا تھا تو پھر …تم اس کے ما تحت ہو یا میرے۔ اس کے انڈر کام کرتے ہو یامیرے؟” اس جملے پر عمر کے اشتعال میں اور اضافہ ہوا۔
”سر ! آئی جی صاحب نے فون کیا تھا اور مجھے اسے چھوڑنے کے لئے کہا تھا۔” عمر نے بے اختیار اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔
”سر ! یہاں پولیس اسٹیشن پر بڑا ہنگامہ ہوا۔” عاطف نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ” اس آدمی کے رشتہ داروں کے سامنے ہی کرنل حمید آئے اور پھر آئی جی صاحب کا فون آیا اور ہمیں ان کے بیٹے کو چھوڑنا پڑا …ان لوگوں نے ہنگامہ شروع کر دیا۔ انہوں نے کرنل حمید کی سرکاری گاڑی پر بہت زیادہ پتھراؤ کیا۔ میں نے بمشکل انہیں یہاں سے بحفاظت نکالا ان لوگوں نے پولیس اسٹیشن پر بھی حملہ کیا۔ ان کے ساتھ بہت زیادہ لوگ تھے وہ آدمی در اصل ہاسپٹل میں مر گیا ہے اور اس کے رشتہ دار کہہ رہے ہیں کہ وہ اس کی لاش تب تک دفن نہیں کریں گے جب تک ہم کرنل حمید کے بیٹے کو پکڑ کر اس پر کیس نہیں چلاتے۔”
”یہ سب تم مجھے بتانے کے بجائے آئی جی کو فون کر کے بتاؤ، وہ تمہیں اس معاملے میں بہتر گائیڈ کر سکتے ہیں۔”
عمر نے سرد مہری سے کہتے ہوئے فون بند کر دیا۔ فون بند کر کے وہ کچھ دیر غصے سے کھولتا رہا پھر سر جھٹک کر اٹھا اپنے آفس سے نکل گیا۔
٩…٩…٩