”کیوا ہوا جنید؟” جنید کی امی نے کچھ چونک کر اسے دیکھا۔ اس کا رنگ فق تھا، وہ اخبار کے نچلے حصے میں موجود ایک نوٹس پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
”کیا ہوا؟” انہوں نے دوبارہ قدرے تشویش سے اس سے پوچھا، جنید نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا اور مسکرانے کی کوشش کی۔
”کچھ نہیں۔”
”کوئی خاص خبر ہے اخبار میں …جسے دیکھ کر پریشان ہو گئے ہو؟” اس کی امی نے کہا۔
”نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔” اس نے اخبار کو تہ کرنے کی کوشش کی مگر اس کی امی نے ہاتھ بڑھا کر اس سے اخبار لے لیا۔ جنید نے مزاحمت نہیں کی۔ وہ اب سامنے ٹیبل پر پڑے چائے کے کپ کو گھور رہا تھا۔
جنید کی امی نے اخبار کو اپنے سامنے پھیلا کر اسی پیج پر ایک نظر دوڑائی جسے جنید دیکھ رہا تھا۔ انہیں اس کی پریشانی کی وجہ جاننے میں دقت نہیں ہوئی، اخبار کے نچلے حصے میں ایک کونے میں جلی حروف کا ایک نوٹس موجود تھا۔
”میری نواسی علیزہ سکندر کی شادی جو مورخہ ٢٥ مارچ کو طے تھی کچھ نا گزیر وجوہات کی وجہ سے ملتوی کر دی گئی ہے۔ میں التوا کے لئے ان تمام لوگوں سے بہت زیادہ معذرت خواہ ہوں جنہیں دعوتی کارڈ ارسال کیے جا چکے ہیں۔
”
مسز معاذ حیدر
نیچے علیزہ کے گھر کا پتہ درج تھا جنید کی امی کو جیسے کرنٹ لگا۔ بے یقینی کے عالم میں انہوں نے جنید کو دیکھا۔
”مسز معاذ نے شادی کینسل کر دی ہے؟ کیوں؟”
وہ اخبار ہاتھ میں لئے شاک کے عالم میں تھیں۔
”امی ! میں نہیں جانتا۔” جنید نے کہا۔
”مگر وہ یہ کیسے کر سکتی ہیں …بلکہ کیوں کریں گی اور وہ بھی ہم سے پوچھے بغیر۔” جنید کی امی کو یقین نہیں آ رہا تھا اگر وہ علیزہ کے گھر کا ایڈریس نہ جانتی ہوتیں تو شاید علیزہ اور نانو کا نام دیکھنے کے با وجود انہیں اس نوٹس کی صداقت پر یقین نہیں آتا۔
”ابھی کل تو میری بات ہوئی ہے ان سے اور انہوں نے ایسا کوئی ذکر نہیں کیا پھر ایسی کون سی ایمر جنسی ہو گئی کہ انہیں یہ قدم اٹھانا پڑا” وہ پریشان ہو گئی تھیں۔
”تمہاری علیزہ سے کب بات ہوئی ہے۔”
”کل۔” جنید نے کہا۔
”کوئی اس طرح کی بات کی اس نے؟”
”نہیں امی ! میں نے آپ کو بتایا ہے اس کی ممی رات کو باہر سے آئی ہیں اور وہ اس شادی کے لئے ہی آئیں ہیں علیزہ نے مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کی۔”
جنید نے قدرے وضاحتی انداز میں کہا۔ مگر یہ بات کہتے ہوئے بھی اس کے ذہن میں دو دن پہلے علیزہ کے ساتھ ہونے والی گفتگو اور پھر علیزہ کی خاموشی تھی …اس کی چھٹی حس …پکار پکار کر کہہ رہی تھی کہ اس نوٹس کی وجہ علیزہ کے سامنے اس کا وہ انکشاف ہی تھا جسے اس نے بہت معمولی سمجھا تھا …مگر جو اس کی اب تک کی سب سے فاش غلطی ثابت ہوا تھا اور جب اس کے اپنے گھر والے اس وجہ تک پہنچیں گے تو پھر خود وہ بھی زیر عتاب آ جائے گا۔
”میں فون کرتی ہوں مسز معاذ کو …آخر ہوا کیا ہے؟”
”لائن بزی ہے۔” کچھ دیر بعد انہوں نے ریسیور کان سے ہٹاتے ہوئے کہا۔
”آخر ہوا کیا ہے …جو انہوں نے اس طرح ہمیں بتائے، ہم سے پوچھے بغیر شادی ملتوی کر دی ہے۔” وہ بڑ بڑا رہی تھیں۔ ”اب تو کارڈز تک تقسیم ہو چکے ہیں اور ابھی تھوڑی دیر میں ہر طرف سے کالز آنا شروع ہو جائیں گی۔ ہم لوگ کیا جواب دیں گے۔” انہوں نے جنید کو دیکھا۔ ”یہ کہ ہمیں پتا نہیں کہ کیوں شادی ملتوی ہو گئی ہے۔”
انہوں نے کہتے ہوئے ایک بار پھر ریسیور اٹھا لیا۔ پھر پہلے کی طرح وہ کچھ دیر فون کان سے لگائے بیٹھی رہیں پھر ان کے چہرے پر مایوسی جھلکنے لگی۔ انہوں نے فون کا ریسیور نیچے رکھ دیا۔
”لائن ابھی تک بزی ہے …جنید تم مجھے ان کے گھر لے چلو۔” انہوں نے اچانک جنید سے کہا۔
”فون پر بات کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ میں ان سے آمنے سامنے بات کروں۔”
”امی اس وقت اتنی صبح صبح …کچھ دیر بعد ۔۔۔”