امی نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”کچھ دیر بعد …؟ مجھ سے صبر نہیں ہو رہا …میں یہاں بیٹھ کر وقت گزرنے کا انتظار نہیں کر سکتی …ابھی تھوڑی دیر میں جب خاندان اور جاننے والوں کی کالز آنا شروع ہوں گی تو میں انہیں کیا بتاؤں گی۔ بہتر ہے میں تب تک ان سے مل آؤں۔ کسی کو کچھ بتانے کے لئے میرے پاس کچھ ہو تو …ہو سکتا ہے ان لوگوں کو واقعی کوئی مسئلہ ہو۔ کوئی سیریس مسئلہ۔ اس وجہ سے وہ ہمیں انفارم نہیں کر سکے۔ اس شادی کے التوا کے بارے میں۔” وہ اب کسی موہوم سی امید کے تحت کہہ رہی تھیں یا شاید خود کو بہلا رہی تھیں۔
”تم …تم علیزہ کے موبائل پر رنگ کرو ۔۔۔” انہیں اچانک خیال آیا۔ جنید نے کچھ کہنے کے بجائے ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا موبائل اٹھا کر علیزہ کا نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا، موبائل آف تھا۔
”امی ! موبائل آف ہے۔” اس نے موبائل کان سے ہٹاتے ہوئے بتایا۔
وہ کچھ دیر اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔ ”تمہارے اور علیزہ کے درمیان کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا؟” انہوں نے اچانک جنید سے پوچھا۔
”امی جھگڑا کیوں ہو گا؟” جنید اس سوال کے لئے تیار نہیں تھا۔
”دیکھو جنید …! اگر تمہارے اور اس کے درمیان ایسی کوئی بات ہوئی ہے تو مجھے بتا دو ۔۔۔” اس کی امی نے اس کے سول کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”امی پلیز ! آپ مجھ پر یقین کریں میرا اور اس کا کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔” جنید نے بے چارگی سے کہا۔ وہ اس وقت دو دن پہلے اس کے ساتھ ہونے والی گفتگو کے بارے میں اپنی امی کو بتانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔
”پھر تم مجھے ان کے گھر لے چلو …یہاں بیٹھ کر وقت ضائع کرنے سے بہتر ہے کہ ہم وہاں چلیں” وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئیں۔
”امی پلیز، آپ پہلے بابا کو جگا کر ان سے بات کریں۔ پھر ان کے گھر جانے کے بارے میں سوچیں۔”
”ہاں …مجھے پہلے تمہارے بابا سے بات کرنی چاہیے۔ میری غیر موجودگی میں وہ اٹھ گئے تو یہاں اخبار میں اس نوٹس کو دیکھ کر پریشان ہوں گے۔ میں ان کو جگاتی ہوں۔”
وہ عجلت میں وہاں سے چلی گئیں۔ جنید نے ایک بار پھر موبائل اٹھا کر نانو کا نمبر ڈائل کیا۔ لائن ابھی بھی بزی تھی۔ اس نے علیزہ کا نمبر ڈائل کیا موبائل آف تھا۔ موبائل رکھ کر وہ ایک بار پھر اخبار اٹھا کر اس نوٹس کو دیکھنے لگا۔ اسے پورا یقین تھا کہ اس نوٹس کے پیچھے علیزہ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا …نانو کا اگر اس طرح کا کوئی ارادہ ہوتا تو وہ کل اس سے ذکر کرتیں یا کم ازکم اس سے اکھڑے ہوئے لہجے میں بات کرتیں۔ مگر انہوں نے ہمیشہ کی طرح بڑی خوش دلی کے ساتھ اس سے بات کی تھی۔ البتہ علیزہ …اس کا عجیب گم صم سا لہجہ اس وقت اسے نہیں کھٹکا تھا مگر اب کھٹک رہا تھا وہ پچھتا رہا تھا کہ اس نے علیزہ سے کل دوبارہ ملنے کی کوشش نہیں کی صرف فون کرنا کیوں کافی سمجھا۔ ہو سکتا تھا کہ وہ اس کے پاس چلا جاتا تو دونوں کے درمیان اس موضوع پر دوبارہ گفتگو ہوتی اور علیزہ اس طرح کا قدم نہ اٹھاتی جس طرح کا اس نے اب اٹھایا تھا …مگر اب یہ سب پچھتاوے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔
تقریباً دس منٹ کے بعد اس کے بابا اور امی دوبارہ وہاں آئے وہ اس دوران تین چار بار نانو کا نمبر ملا چکا تھا مگر رابطہ کرنے میں نا کام رہا تھا۔ بابا کے چہرے سے پریشانی واضح تھی۔
”دکھاؤمجھے، کون سا نوٹس ہے؟” انہوں نے اندر آتے ہی جنید سے کہا۔
”تم نے دوبارہ فون ملایا؟” اس کی امی نے ایک بار پھر پوچھا۔
”لائن بزی ہے۔” اس نے اخبار اپنے بابا کو دیتے ہوئے کہا۔ اس کے بابا نے کھڑے کھڑے ایک نظر اس نوٹس پر ڈالی اور ان کے چہرے کی سنجیدگی اور پریشانی میں اضافہ ہو گیا۔
”ہاں فون پر بات کرنے سے بہتر ہے کہ ہم ان کے گھر چلیں …آخر اتنا بڑا قدم انہوں نے اس طرح کیسے اٹھا لیا۔” انہوں نے اپنی بیوی کی طرف مڑتے ہوئے کہا۔
”تمہاری مسز معاذ سے کب بات ہوئی تھی؟” انہوں نے اپنی بیوی سے پوچھا۔
”کل رات ہوئی تھی، انہوں نے قطعاً کوئی ایسا اشارہ نہیں دیا کہ وہ اس طرح کا کوئی قدم اٹھانے کا سوچ رہی ہیں۔” جنید کی امی نے کہا۔
”مگر وہ ایسا کیوں کریں گی …اس رشتہ میں ان کی پسند شامل تھی …وہ تو وقتاً فوقتاً تم سے فون پر بات بھی کرتی رہی ہیں۔ پھر وہ اس طرح کیوں کریں گے؟”
جنید کے بابا نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”اور بالفرض وہ ایسا کرنا چاہتیں بھی تو بھی وہ اتنی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کرتیں کہ خود ہی ایسا کوئی نوٹس دے دیتیں۔ وہ یقیناً پہلے ہم لوگوں کو مطلع کرتیں اور وہ نہ کرتیں تو مسز معاذ تو ضرور کرتیں۔۔۔”
”جنید ! تم گاڑی نکالو …میں کپڑے بدل کر آتا ہوں۔ تم بھی ہمارے ساتھ ہی ان کے گھر چلو ۔۔۔” انہوں نے جنید کو ہدایت دی۔
”بابا ! میرا جانا مناسب ہو گا …؟” جنید کے بابا نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”کیوں مناسب نہیں ہو گا۔ بہتر یہی ہے کہ تمام بات تمہارے سامنے ہو۔”
”جی بابا! ” جنید نے جی کڑا کر کے کہا۔
”تم گاڑی نکالو …ہم لوگ آتے ہیں۔” انہوں نے جنید کی امی کے ساتھ کمرے سے نکلتے ہوئے کہا۔
وہ کچھ کہے بغیر خود بھی ان کے پیچھے ہی باہر گیراج کی طرف نکل گیا مگر اس وقت وہ بے حد پریشان تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ اگلے چند گھنٹوں میں علیزہ کے گھر پر اس کے والدین کی موجودگی میں کیا گفتگو ہونے والی تھی اور اسے اب اور بہت سی دوسری باتوں کی طرح، اپنے اس جھوٹ پر بھی پچھتاوا ہو رہا تھا۔ جو کچھ دیر پہلے اس نے امی سے بولا تھا۔
”بہتر ہے کہ وہاں جانے سے پہلے میں اپنے پیرنٹس کو سچ بتا دوں۔” اس نے گاڑی نکالتے ہوئے فیصلہ کیا۔