”یاد رکھو …تمہارا آپریٹر، تمہارا پی اے، تمہارا ڈرائیور، تمہارے گارڈز اور کسی ایک پولیس اسٹیشن کا کوئی ایک تیز قسم کا ایس ایچ او، چلتا پرزہ ٹائپ کا یہ تمہارے بہترین ہتھیار ہیں اور اس وقت تمہارے پاس ان میں سے ایک بھی ہتھیار نہیں ہے۔ جتنی کرینک کالز تمہارے پاس آئی ہیں، تمہارے آپریٹر کو ان سب کا کچا چٹھا پتا ہو گا۔ تمہارے پی اے کو پتا ہو گا اس سب کا۔” عباس ایک بار پھر سنجیدہ ہو گیا۔ ”نہ صرف یہ بلکہ مال کمانے اور بنانے کے جتنے مواقع تمہارے پاس آنے ہیں، وہ ان ہی آدمیوں کے ذریعے آنے ہیں۔ تمہارا ڈی ایس پی اور اے ایس پی کوئی ڈیل یا کوئی آفر نہیں لے کر آئے گا تمہارے پاس، یہی چار پانچ لوگ لے کر آئیں گے۔ اس لئے ان کے ساتھ قدرے خاص سلوک کرو۔ Let them befriend you. (ان سے دوستی کرو) عباس نے کہا۔
عمر نے اس کی بات پر بے اختیار نخوت آمیز انداز میں اپنے کندھے جھٹکے۔ be friend me کانسٹیبل سب انسپکٹر، کلرک ٹائپ کے لوگوں کو میں اپنے دوستوں کی فہرست میں شامل کر لوں امپاسبل۔ ان ٹکے ٹکے کے لوگوں کو میں اپنے سر پر بٹھا لوں۔” اس نے قطعیت سے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”پہلے بھی تو وہ تمہارے سر پر ہی بیٹھے ہوئے ہیں۔” عباس نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”ان جیسے جھوٹے اور کرپٹ لوگوں کو میں سلام کرتا پھروں۔” عمر جہانگیر کے لہجے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
”اوئے تیرا کیا جاتا ہے۔ اگر وہ جھوٹ بولتے ہیں یا فراڈ کرتے ہیں۔ تجھے کیا ہے ” عباس نے اسے بری طرح جھڑکتے ہوئے کہا۔
”نہیں آخر کیوں؟ میں ایسے لوگوں کو کیوں منہ لگاؤں، صرف ان سے خوفزدہ ہو کر۔” عمر اب بھی اس کی باتوں سے متاثر نہیں ہوا تھا۔
”اگر آپ انہیں منہ نہیں لگائیں گے تو پھر یہ آپ کے پیروں کی ایسی رسی بن جائیں گے کہ آپ کو اپنی جگہ سے ہلنے نہیں دیں گے۔” عباس نے اس بار اسے پچکارتے ہوئے کہا۔
”مجھے اگر ثبوت مل گئے کہ ان لوگوں نے جان بوجھ کر مجھ تک غلط انفارمیشن پہنچائی ہے تو میں اب سب کو معطل کر دوں گا۔”
”اس سے کیا فرق پڑے گا۔ ان کی جگہ جو دوسرے لوگ آئیں گے۔ وہ بھی آپ کے ساتھ یہی سلوک کریں گے۔” عباس نے لا پروائی سے کہا۔”جب تک آپ اپنا طریقہ کار نہیں بدلیں گے، آپ کے ساتھ یہی ہوتا رہے گا۔”
”یہ لوگ اتنے طاقتور نہیں ہیں، جتنا تم انہیں میرے سامنے بنا کر پیش کر رہے ہو۔” عمر نے عباس کی بات کے جواب میں کہا۔
”آپ ایک مقابلے کا امتحان پاس کر کے آئے ہیں عمر جہانگیر صاحب …یہ لوگ کیا کیا چیزیں ”پاس” کر کے آئے ہیں آپ کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہے۔” عباس نے طنزیہ لہجے میں اس سے کہا۔ ”صرف تعلیم نہیں ہے ان کے پاس …اس طرح کی تعلیم جسے آپ اور میں تعلیم سمجھتے ہیں …مگر انہیں ہر وہ ہتھکنڈہ آتا ہے جس سے اس سوسائٹی میں ان کی Survival (بقا) ممکن ہوتی ہے۔” عباس نے ایک سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔ ”تمہیں پتا ہے یہ ڈرائیور، گارڈ، پی اے، ٹائپ کے تمام لوگ سیاسی سفارشوں پر بھرتی ہوئے ہوتے ہیں، اور جو لوگ ان کو اس محکمے میں بھرتی کرواتے ہیں وہ صرف ان کی دعائیں لینے کے لئے تو یہ کام نہیں کرتے۔”
اس نے سگریٹ کا پیکٹ عمر کے سامنے کھسکاتے ہوئے کہا۔ عمر نے خاموشی سے اس پر نظریں جمائے ہوئے اس پیکٹ کو اٹھا کر اس میں سے ایک سگریٹ نکال لیا۔ عباس اب لائٹر کے ساتھ اپنے ٹیبل سے کچھ آگے جھکتے ہوئے عمر کے سگریٹ کو سلگا رہا تھا۔
”یہ ان سیاسی لیڈرز کے گرگے ہوتے ہیں، نمک حلالی کرتے ہیں ان کے ساتھ …یہ ہم لوگوں اور سیاست دانوں کے درمیانی پل کا کام کرتے ہیں اور کسی بھی پل کو کبھی بیکار سمجھ کر توڑنا نہیں چاہیے۔” عباس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ”تم ان میں کسی ایک کو معطل کر کے دیکھو کہاں کہاں سے سفارشیں تمہارے پاس آئیں گی تم خود حیران ہو جاؤ گے۔” عباس نے سگریٹ کا ایک کش لیتے ہوئے کہا۔
”مثلاً میرے ڈرائیور کا ایک بیٹا ڈی سی کے دفتر میں جونئیر کلرک ہے۔ اس کا ایک بھائی سیکرٹریٹ میں چوکیدار ہے۔ ایک اور بھائی گورنر ہاؤس میں مالی ہے اور ایک اور بھائی آئی جی صاحب کی گاڑی کا ڈرائیور ہے اس سے زیادہ با رسوخ خاندان کوئی ہو سکتا ہے۔”
عباس نے آخری جملہ ایک قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ”مجھے بڑا محتاط رہنا پڑتا ہے اس کے سامنے …کیونکہ ہر بات وہ ہر جگہ پہنچا دیتا ہے۔ اسی طرح مجھے اس کے ذریعے وہاں کی تمام باتوں کا پتہ چلتا رہتا ہے …حتیٰ کہ آئی جی صاحب نے جب اپنی دوسری بیوی کو طلاق دینی تھی تو ان کی بیوی سے پہلے مجھے پتا چل چکا تھا۔”
اس بار عمر اس کی بات پر مسکرایا۔
”دراصل عمر ! یہ لوگ وہ طوطے ہیں جن کے قبضے میں ہماری جان ہوتی ہے۔ انہیں ہمارے بارے میں سب کچھ پتا ہوتا ہے یا یہ سب کچھ پتا چلا لیتے ہیں۔ با خبر آدمی بہت نقصان دہ ہوتا ہے اس صورت میں اگر وہ آپ کا دشمن بھی ہو۔”
اس سے پہلے کہ عباس مزید کچھ کہتا عباس کا پی اے اندر آ گیا تھا۔
”مدثر صاحب سے ملوایا ہے تمہیں میں نے؟” اس سے پہلے کہ اس کا پی اے کچھ کہتا عباس نے عمر سے پوچھا عمر نے نفی میں سر ہلایا۔ وہ اس دن پہلی بار عباس کے آفس گیا تھا۔
”مدثر صاحب ! یہ میرے کزن ہیں عمر جہانگیر اور عمر ! یہ مدثر صاحب ہیں، بہت ہی کمال کے آدمی ہیں، میں نے تو آفس کا سارا کام ان سے سیکھا ہے۔”