اگلے دن صبح وہ کچھ دیر سے ناشتے کے لئے آئی تھی۔
”جنید نے صبح دو تین بار فون کیا تھا۔” نانو نے اسے دیکھتے ہی اطلاع دی۔
وہ کوئی رد عمل ظاہر کئے بغیر ناشتہ کے لئے ڈائننگ ٹیبل پر جا بیٹھی۔ مرید بابا اسے دیکھ کر ناشتہ لگانے لگے۔
”تمہیں یاد ہے نا آج رات ثمینہ آ رہی ہے؟” نانو نے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
”جی ۔۔۔” اس نے مختصر جواب دیا۔
”تم میرے ساتھ ائیر پورٹ اسے ریسیو کرنے چلو گی؟” نانو نے اس سے کہا وہ لاؤنج کے ایک صوفہ پر بیٹھی ہوئی تھیں، جب کہ علیزہ ان سے قدرے فاصلے پر ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تھی اس لئے نانو کو قدرے بلند آواز میں بات کرنی پڑ رہی تھی۔
”چلی جاؤں گی۔” علیزہ نے پھر اسی انداز میں جواب دیا۔ علیزہ نے ناشتہ شروع کر دیا نانو کچھ دیر دور بیٹھے ہوئی اسے دیکھتی رہیں پھر اٹھ کر اس کے قریب چلی آئیں، ایک کرسی کھینچ کر اس کے قریب بیٹھتے ہوئے انہوں نے پوچھا۔
”کیا ہوا تھا رات کو تمہارے اور جنید کے درمیان؟”
سلائس کھاتے ہوئے ایک لمحے کے لئے علیزہ کا ہاتھ رکا مگر پھر اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے سلائس کھانا جاری رکھا۔
”تم لوگوں کا جھگڑا ہوا تھا؟” نانو کچھ دیر اس کے جواب کا انتظار کرتی رہیں پھر پوچھا۔
علیزہ نے اس بار بھی کچھ نہیں کہا وہ اسی طرح سر جھکائے سلائس کھاتی رہی۔
”جھگڑا تم کرتی ہو اور تمہاری وجہ سے پریشانی مجھے اٹھانی پڑتی ہے۔” اس بار نانو نے بے صبری سے کہا۔ ”اب کس بات پر جھگڑا ہوا تھا؟” علیزہ نے اس بار بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
”علیزہ ! اب یہ بچپنا چھوڑ دو …بیس دن رہ گئے ہیں تمہاری شادی میں اور تم اب بھی بچوں کی طرح اس سے لڑنے میں مصروف ہو۔ وہ کیا سوچتا ہو گا تمہارے بارے میں اور ہماری فیملی کے بارے میں؟” نانو نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔
سلائس پر اس کی گرفت کچھ سخت ہوئی مگر اس نے سر پھر بھی نہیں اٹھایا۔ وہ بد ستور سلائس کھاتی رہی۔
”تم میری بات سن رہی ہو؟” اس بار نانو کی خفگی میں کچھ اضافہ ہوا۔ ”میں تم سے مخاطب ہوں۔”
”میں سب سن رہی ہوں نانو!” اس نے بالآخر سر اٹھا کر کہا۔
نانو کو اس کے چہرے کے تاثرات بہت عجیب سے لگے۔
”تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟” انہوں نے تشویش سے پوچھا۔
”جی ۔۔۔” وہ ایک بار پھر سلائس کھانے لگی۔
”جنید کا فون ریسیو کر لینا …بلکہ بہتر ہے کہ تم خود اس کو کال کر لو …اس نے کہا تو نہیں مگر تم کال کرو گی تو اسے اچھا لگے گا۔” انہیں اچانک پھر جنید کا خیال آیا۔
”جی ! ” اس نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”شہلا کب آ رہی ہے۔ آج کچھ کپڑے لینے کے لئے مارکیٹ جانا تھا تم لوگوں کو۔” نانو نے کچھ مطمئن ہو کر اٹھتے ہوئے کہا۔
”وہ آج نہیں آ رہی۔”
”کیوں؟”
”وہ کچھ مصروف ہے اس لئے۔”
”تم اکیلی چلی جاتیں۔”
”نہیں میں اکیلے نہیں جانا چاہتی۔”
”چلو ٹھیک ہے، آج ثمینہ آ جائے گی تو کل وہ بھی تمہارے ساتھ چلی جائے گی۔” نانو کو اچانک خیال آیا۔
علیزہ نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ اس نے چائے کا کپ اٹھایا ہی تھا جب فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
”جنید کا فون ہو گا۔ تم اٹھا لو۔” نانو نے لاؤنج سے نکلتے ہوئے کہا۔
چائے کا کپ وہیں رکھ کر وہ فون کی طرف بڑھ آئی۔ دوسری طرف جنید ہی تھا۔ رسمی سلام دعا کے بعد جنید نے اس سے کہا۔
”میں صبح سے تین بار فون کر چکا ہوں۔”
”ہاں نانو نے مجھے بتایا تھا” علیزہ نے سر سری سے انداز میں کہا، وہ کچھ دیر تک خاموش رہا۔
”تمہارا موڈ اب کیسا ہے؟”
”ٹھیک ہے۔”
”ناراضی ختم ہو گئی ہے؟”
”ہاں۔”
”مجھے توقع تھی کہ تمہارا غصہ جلد ختم ہو جائے گا اور تم میرا پوائنٹ آف ویو سمجھ جاؤ گی۔” جنید نے بے اختیار اطمینان بھرا سانس لیتے ہوئے کہا۔
وہ خاموش رہی۔
”میں تو ساری رات بہت ٹینس رہا ہوں، تمہاری ناراضی کی وجہ سے۔”
وہ پھر خاموش رہی۔
”تم کچھ بات نہیں کر رہیں؟” جنید کو اچانک محسوس ہوا۔
”کیا بات کروں؟”
”کچھ بھی …کیا میرا بتانا ضروری ہے؟”
”میرے ذہن میں کوئی بھی بات نہیں ہے فی الحال ۔۔۔” اس نے کہا۔
”اچھا میں تمہیں رات کو فون کروں گا۔” جنید نے کہا ”اس وقت میں گاڑی میں ہوں۔”
”نہیں رات کو فون نہ کریں …ممی آ رہی ہیں۔ ہم لوگ مصروف ہوں گے۔” علیزہ نے کہا۔
”ارے ہاں مجھے خیال ہی نہیں رہا …رات کو تم خاصی مصروف رہو گی۔ کتنے بجے کی فلائٹ سے آ رہی ہیں؟”
”نو بجے کی فلائٹ سے۔”
”ٹھیک ہے پھر کل بات ہو گی تم سے۔” جنید نے خدا حافظ کہتے ہوئے فون بند کر دیا وہ یک دم بہت پر سکون ہو گیا تھا ورنہ پچھلی رات سے وہ مسلسل علیزہ کے رویے کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا۔
آفس میں کام کرتے رہنے کے بعد شام کو وہ گھر چلا گیا اور رات کو جلد ہی سو گیا۔
٭٭٭