”میجر لطیف بات کرنا چاہتے ہیں آپ سے۔” آپریٹر کے جملے پر عمر کے ماتھے پر کچھ بل آ گئے۔ اس ہفتے کے دوران میجر لطیف کی طرف سے ملنے والی یہ چھٹی کال تھی۔
”بات کرائیں۔” اس نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا۔ یہ آدمی واقعی اس کا ناک میں دم کر رہا تھا۔ رسمی سلام دعا کے بعد وہ سیدھا کام کی بات پر آ گیا ایک پولیس اسٹیشن کا حدود و اربعہ بتاتے ہوئے اس نے عمر سے کہا۔
”اس پولیس اسٹیشن کے بارے میں ایک شہری کی طرف سے شکایت آئی ہے ہمارے پاس۔”
”جی فرمائیے۔ کیا شکایت آئی ہے آپ کے پاس؟”
”اس پولیس اسٹیشن کے انچارج نے اس شخص کے بیٹے کو چوری کے جھوٹے الزام میں پچھلے چھ ماہ سے بند کیا ہوا ہے۔” میجر لطیف نے تیز لہجے میں کہا۔
عمر بڑے تحمل سے اس کی بات سننے لگا۔
”اس شخص نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ پولیس نے ایف آئی آر درج کئے بغیر اس آدمی کو گرفتار کیا ہے۔”
”آپ اس شخص کا نام بتا دیں، جس کی بات کر رہے ہیں۔” عمر نے سامنے ٹیبل پر پڑا پین اٹھاتے ہوئے نوٹ پیڈ اپنی طرف کھسکایا۔ میجر لطیف نے دوسری طرف سے اس شخص کے کوائف نوٹ کروائے۔ عمر نے اپنے سامنے پڑے نوٹ پیڈ پر اس آدمی کے کوائف تیز رفتاری سے لکھے۔
”میں چیک کرتا ہوں کہ اس شخص کی شکایت ٹھیک ہے یا نہیں۔” عمر نے اس آدمی کے کوائف نوٹ کرنے کے بعد کہا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے میں پہلے ہی چیک کر چکا ہوں، اس شخص کی شکایت بالکل درست ہے۔” دوسری طرف سے میجر لطیف نے کہا۔ عمر کے ہونٹ بھینچ گئے۔
”اس شخص کے بیٹے کو واقعی ایف آئی آر درج کئے بغیر غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا ہے۔” میجر لطیف دوسری طرف سے کہہ رہا تھا۔ ”وہ پچھلے چھ ماہ سے وہ اس پولیس اسٹیشن کے انچارج کی تحویل میں تھا۔”
”آپ نے جہاں یہ چیک کرنے کی زحمت کی۔ وہاں اسے چھڑوانے کی زحمت بھی کر لیتے۔” عمر نے کچھ طنزیہ انداز میں اس سے کہا۔
”جی یہ زحمت بھی کر چکا ہوں میں۔ چھڑا چکا ہوں اب سے کچھ گھنٹے پہلے۔” میجر لطیف نے بھی دوسری طرف سے اسی طنزیہ انداز میں کہا۔
”تو پھر جب آپ نے دونوں کام خود ہی کر لئے، تو مجھ سے رابطے کی زحمت کس لئے کی آپ نے؟” عمر نے اسی انداز میں بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
”یقیناً آپ کا بہت قیمتی وقت ضائع ہوا ہو گا میری اس کال سے۔ مگر میں نے ضروری سمجھا کہ آپ کو اطلاع دے دوں کہ آپ کے انڈر پولیس اسٹیشنز میں کیا ہو رہا ہے۔ پھر ان بے ضابطگیوں کی اطلاع اگر اسی طرح اوپر گئی تو آپ کو اور آپ کے ما تحتوں کو خاصی تکلیف ہو گی۔” میجر لطیف نے بھی اپنا طنزیہ انداز برقرار رکھا۔
”بڑی مہربانی آپ کی …اس اطلاع کے لئے۔” عمر نے مختصراً کہا۔
”اپنے ما تحتوں کا تو مجھے پتا نہیں مگر مجھے آپ کی ان رپورٹس سے کوئی تکلیف یا زحمت نہیں ہو گی۔ آپ ان رپورٹس کا سلسلہ جاری رکھیں۔” عمر نے سنجیدگی سے کہا۔
”اس ہفتے میرے پاس آنے والی یہ اٹھارویں شکایت ہے اور ہر بار مجھے اس پر خود ہی ایکشن لینا پڑا ہے۔” میجرلطیف نے کچھ جتانے والے انداز میں کہا۔
”میجر صاحب ! آپ نے اپنا کام کافی بڑھا نہیں لیا۔ اصولی طور پر آپ کو یہ تمام شکایات مجھ تک ریفر کر دینی چاہیے تھیں۔ میں خود اس سے نمٹ لیتا، آپ کو خوامخواہ اس طرح کی زحمت نہ کرنی پڑتی۔” عمر نے میجر لطیف سے کہا۔
”زحمت والی تو کوئی بات نہیں۔ آپ اور آپ کے ما تحت اتنے Efficient ہوتے تو ہمیں یہاں آنا ہی کیوں پڑتا۔ آپ کو تو میں اس سب سے صرف اس لئے انفارم کر رہا ہوں تا کہ آپ اپنے ماتحتوں پر چیک رکھیں اور کبھی کبھار تکلفاً اپنے دفتر کے علاوہ کہیں ادھر ادھر بھی چکر لگا لیا کریں۔” اس بار میجر لطیف کا لہجہ پہلے سے زیادہ طنزیہ تھا۔
”ہماری زحمت کا آپ کو اتنا خیال ہو تو آپ اپنے ما تحتوں کو خود نکیل ڈال کر رکھیں۔”
”میجر صاحب آپ اگر منہ اٹھا کر میری حدود کے آخری پولیس اسٹیشنز کا طواف کرتے پھریں گے تو پھر کوئی الٰہ دین کا جن ہی ہو گا جو آپ کی زحمت میں کمی کر سکے گا۔” عمر کے لہجے میں بھی اس بار پہلے سے زیادہ تندی و تیزی تھی۔
”ہر شکایت آپ دیہاتیوں کی لے کر آ رہے ہیں۔ شہر کے اندر کے پولیس اسٹیشنز کی بات کریں۔ وہاں کی ورکنگ بھی دیکھیں۔”
”کیوں شہر سے باہر کے پولیس اسٹیشنز آپ کے انڈر نہیں آتے یا پھر دیہاتیوں کو آپ نے پاکستان کے شہریوں کی فہرست سے نکال دیا ہے۔” میجر لطیف نے بڑے کٹیلے انداز میں کہا۔
”میں نے آپ کو فون آپ کے طنز سننے کے لئے نہیں کیا۔ آپ کو یہ بتانے کے لئے کیا ہے کہ آپ کے عملے کے بارے میں ہمارے پاس بے تحاشا شکایات آ رہی ہیں۔ آپ ان کا سد باب کرنے کے لئے کچھ کریں ورنہ ۔۔۔” عمر نے اسے اپنی بات مکمل کرنے نہیں دی۔