”ٹھیک ہے میں چیک کر لوں گا آپ کی انفارمیشن کے لئے آپ کا شکریہ۔” عمر نے فون بند کر دیا۔
میجر لطیف اس کو واقعی ناکوں چنے چبوا رہا تھا اس نے آتے ہی شہر کے نواحی علاقوں میں قائم پولیس اسٹیشنز کو دیکھنا شروع کر دیا تھا جب کہ عمر کا خیال تھا کہ وہ شہر کے اندر کے پولیس اسٹیشنز کو دیکھے گا اور نواحی علاقوں کو سرے سے نظر انداز کر دے گا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی ہدایات پر شہر کے اندر کے تمام اسٹیشنز پر خاص چیک رکھا گیا تھا اس کے ما تحتوں نے نہ صرف اپنا ریکارڈ اپ ریٹ کیا تھا بلکہ باقی تمام معاملات میں بھی ان کا رویہ بہت محتاط ہو گیا تھا۔ ایف آئی آر درج کرنے کے سلسلے میں بھی ان کی کارکردگی بہت بہتر ہو گئی تھی۔
میجر لطیف کو اندازہ تھا کہ عمر کہاں سے کام شروع کرے گا۔ اس نے اس کی توقعات کے بر عکس سب سے پہلے ان پولیس اسٹیشنز کو دیکھنا شروع کیا تھا جو نواحی علاقے میں تھے اور اس کے حسب توقع وہاں بے شمار بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں تھیں۔ چند ہفتوں میں ہی اس کے پاس شکایات کی بھر مار ہو گئی تھی اور میجر لطیف ان شکایات پر دھڑا دھڑ اپنی رپورٹس بنا کر بھجوا رہا تھا۔
عمر جہانگیر ان ہفتوں کے دوران تین بار ہیڈ کوارٹر جا چکا تھا، جہاں ان رپورٹس پر اس کی اور اس کے ما تحت عملے کی کارکردگی زیر بحث آئی تھی۔ تیسری بار وہ ہیڈ کوارٹر جاتے ہوئے خاصا مشتعل تھا اور اس کا یہ اشتعال اس وقت بھی کم نہیں ہوا تھا جب وہ آئی جی کے سامنے پیش ہوا تھا۔
”جب تک یہ آدمی میرے سر پر بیٹھا رہے گا۔ مجھے اسی طرح بار بار یہاں آنا پڑے گا۔ یہ آدمی میرے خلاف ذاتی مخاصمت …رکھتا ہے۔” اس نے آئی جی سے کہا تھا۔
”میں کچھ بھی کر لوں، یہ پھر بھی اسی طرح کی شکایتوں کا ڈھیر یہاں پہنچاتا رہے گا۔ میں اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔”
”جسٹ کول ڈاؤن عمر ! میں تمہارا مسئلہ سمجھتا ہوں اور تمہاری پوزیشن بھی۔ مگر میں اس سلسلے میں مجبور ہوں۔ کام تمہیں میجر لطیف کے ساتھ ہی کرنا ہے اور اپنی کارکردگی بھی بہتر بنانی ہے۔”
انہوں نے بڑے نرم لہجے میں اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ وہ عمر جہانگیر کے فیملی بیک گراؤنڈ سے اچھی طرح واقف تھے اور وہ ملک کی اس طاقتور ترین فیملی کے پس منظر کو بھی جانتے تھے اور وہ عمر جہانگیر کو ایک معمولی جونئیر آفیسر کے طور پر ٹریٹ نہیں کر سکتے تھے۔
“Sir Im already doing my optimum best”
عمر جہانگیر نے اپنے لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”اگر ایک آدمی یہ طے کئے بیٹھا ہے کہ اس نے میرے خلاف کوئی پازیٹو رپورٹ بھجوانی ہی نہیں ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔” عمر نے کہا۔
”میں نے آپ کے تمام اعتراضات نوٹ کئے۔ میں انہیں فارورڈ بھی کر دوں گا۔ مگر میں بتا دوں وہ میجر لطیف کو نہیں بدلیں گے نہ ہی وہ یہ بات ماننے کو تیار ہوں گے کہ وہ اپنا کام ٹھیک ہی نہیں کر رہا یا جان بوجھ کر تمہیں تنگ کر رہا ہے۔ تم جانتے ہو وہ کور کمانڈر کا بیٹا ہے۔”
آئی جی نے بہت صاف اور واضح لفظوں میں اس سے کہا۔
”کور کمانڈر کا بیٹا ہے تو اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کر سکتا۔” عمر نے احتجاج کرتے ہوئے کہا۔
”فی الحال اس کا یہی مطلب ہے۔” آئی جی نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا۔
”میں اس سے زیادہ بہتر کام نہیں کر سکتا۔ میں جتنا کر سکتا ہوں کر رہا ہوں۔” عمر نے کہا۔
”تم اپنے اور میرے لئے مسئلے کھڑے کرنے کی کوشش نہ کرو، میری پہلے ہی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ میں کس کس کا دفاع کروں، کوئی دن ایسا نہیں جا رہا جب مجھے تم لوگوں میں سے، کسی نہ کسی کو یہاں بلا کر تنبیہہ نہ کرنا پڑ رہی ہو اور بعض دفعہ تو تم لوگوں کی وجہ سے خود مجھے بڑی شرمندگی ہوئی ہے۔”
آئی جی شاید اس دن خاصے پریشان تھے اس لئے وہ عمر جہانگیر کے سامنے اپنے دکھڑے رونے لگے۔ عمر ہونٹ بھینچتے ان کی باتیں سنتا رہا۔
”اب مجھے بتاؤ میں کیا کروں تمہارے لئے؟” کافی دیر بعد آئی جی دوبارہ اس کے مسئلے پر آ گئے۔ ”ٹرانسفر کروا دوں تمہاری؟”
”آپ اس کی ٹرانسفر کروا دیں۔”
”میں یہ نہیں کر سکتا۔”
”تو پھر میری ٹرانسفر کیوں؟ وہ تو پہلے ہی چاہتا ہے یہ تو ہتھیار ڈال کر بھاگ جانے والی بات ہوئی۔” عمر کے اشتعال میں کچھ اور اضافہ ہوا۔
”مگر تمہاری جان تو چھوٹ جائے گی اس سے۔” آئی جی نے تصویر کا روشن پہلو اسے دکھانے کی کوشش کی۔
”ویسے بھی یہاں تمہاری پوسٹنگ کا دورانیہ تو کچھ اور ماہ کے بعد پورا ہو ہی جائے گا تب بھی تو تمہیں کہیں اور جانا ہی ہے۔”