”تب کی اور بات ہے۔ وہ تو ایک معمول کا حصہ ہے مگر اب اس طرح تو کہیں نہیں جانا۔” عمر نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔ ”آپ میری ٹرانسفر کرنا کہاں چاہتے ہیں، بڑے شہروں میں تو کہیں بھی جگہ نہیں ہے اور مجھے کسی چھوٹے شہر میں نہیں جانا۔” عمر نے کہا۔
”فیڈرل گورنمنٹ میں بھجوا دوں؟” آئی جی نے فوراً کہا۔
”سر مجھے کسی دوسرے صوبے میں نہیں جانا …مجھے پنجاب میں ہی کام کرنا ہے۔ فیڈرل گورنمنٹ نے مجھے کسی چھوٹے صوبے میں بھجوا دیا تو میری ساری سروس خراب ہو جائے گی۔ مجھے یہیں رہنے دیں۔ جب چند ماہ بعد میری ٹرانسفر ہو گی تب دیکھا جائے گا مگر فی الحال میں اپنا علاقہ چھوڑنا نہیں چاہتا۔” عمر نے آئی جی سے کہا۔
”جب چند ماہ کی بات رہ گئی ہے تو کچھ اور محتاط ہوجاؤ اور اس سے کو آپریٹ کرو، تا کہ کم از کم وہ اوپر رپورٹس بھجوانی تو بند کرے …اور اس کے کہنے پر چھوٹے موٹے ما تحتوں کو معطل کرتے رہو کم از کم یہ تو ظاہر ہو کہ تم ایکشن لے رہے ہو۔” آئی جی نے اس کو اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے ہوئے کہا۔
”سر ! میں پہلے ہی دس ما تحتوں کو معطل کر چکا ہوں اگرمیجر لطیف کے مشوروں پر کام کروں گا تو پھر اگلے ماہ تک میرے ساتھ کام کرنے والے تمام لوگ معطل ہو چکے ہوں گے۔ اس پر پھر آپ کو شکایت ہو گی۔” عمر کے پاس ہر بات کا گھڑا گھڑایا جواب موجود تھا آئی جی نے ایک طویل گہرا سانس لیا۔
”ٹھیک ہے تم جاؤ اور میں ایک بار پھر تم سے کہہ رہا ہوں کہ محتاط رہو۔”
اس بار عمر جہانگیر نے ان کی بات کے جواب میں کچھ نہیں کہا وہ انہیں خدا حافظ کہتے ہوئے وہاں سے نکل گیا۔ کیونکہ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ آئی جی اب اس ساری بحث سے تنگ آ چکے تھے۔ عمر کو ان کی پریشانی کا بھی اندازہ تھا، وہ بھی بری طرح پھنسے ہوئے تھے۔ اگر ایک طرف آرمی تھی تو دوسری طرف عمر جہانگیر کا خاندان …وہ دونوں میں سے کسی کے ساتھ بھی بگاڑ نہیں چاہتے تھے اور نہ ہی بگاڑ سکتے تھے۔ کیونکہ عمر جہانگیر کا خاندان معمولی سی بات پر بھی ہنگامہ اور طوفان اٹھا دینے میں کمال مہارت رکھتا تھا۔
عمر جہانگیر اچھی طرح جانتا تھا کہ ٹرانسفر سے وہ واقعی میجر لطیف سے چھٹکارا پا لیتا مگر خود اس کے اپنے سروس ریکارڈ کے لئے یہ بہتر نہیں ہوتا اس کے باوجود اس دن آئی جی کے آفس سے آنے کے بعد اس نے بڑے ٹھنڈے دماغ سے اس سارے معاملے پر غور و خوض کیا تھا کہ وہ اپنی جاب میں اپنی دلچسپی کھو رہا تھا اس کے ہاتھ اب بندھ چکے تھے۔
٭٭٭