اگلی صبح جنید حسب معمول نو بجے کے قریب ناشتے کے لئے آیا تھا۔
”بابا نظر نہیں آ رہے؟” اس نے کرسی پر بیٹھتے ہی اپنی امی سے پوچھا۔
”وہ آج کچھ دیر سے آفس جائیں گے اس لئے ابھی نہیں اٹھے۔” اس کی امی نے بتایا، وہ اب اسے ناشتہ سرو کر رہی تھیں۔
”علیزہ کی امی آ گئی ہیں؟” انہوں نے جنید کو چائے سرو کرتے ہوئے پوچھا۔
”پتا نہیں رات نو بجے فلائٹ تھی۔ میری اس کے بعد اس سے بات نہیں ہوئی۔ آ گئی ہوں گی۔” جنید نے اخبار کھولتے ہوئے کہا۔
”میں آج ان کی طرف جانے کا سوچ رہی ہوں۔” اس کی امی نے کہا۔
”ہاں ضرور جائیں ۔۔۔” جنید نے خوش دلی سے کہا۔
”مگر پہلے میں فون پر ان سے بات کر لوں تا کہ ان کی کوئی اور مصروفیت نہ ہو آج کے دن کے لئے۔” اس کی امی نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
جنید ان کی بات پر سر ہلاتے ہوئے اخبار دیکھتا رہا۔ فرنٹ پیج پر سرخیاں پڑھنے کے بعد اس نے اخبار کا پچھلا صفحہ دیکھا اور اس پر ایک سر سری سی نظر دوڑائی۔ صفحے کے نیچے ایک نوٹس پر نظر ڈالتے ہی اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا چائے کا کپ چھوٹتے چھوٹتے بچا تھا۔
”کیا ہوا جنید؟” اس کی امی نے کچھ چونک کر اسے دیکھا، جنید کا رنگ فق تھا وہ اخبار کے نچلے حصے میں موجود ایک خبر پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
٭٭٭
عمر نے فون اٹھایا، دوسری طرف سے آپریٹر اسے کسی کرنل حمید کے آن لائن ہونے کی اطلاع دے رہا تھا۔ عمر کے ماتھے پر چند بل نمودار ہوئے یہ نام اس کے لئے آشنا نہیں تھا۔
”بات کرواؤ۔” اس نے آپریٹر کو لائن ملانے کے لئے کہا۔
کچھ دیر بعد …دوسری طرف سے …کسی سلام دعا کے بغیر اکھڑ لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”ایس پی عمر جہانگیر بات کر رہا ہے؟” عمر کے ماتھے کے بلوں میں کچھ اور اضافہ ہو گیا۔ ”بول رہا ہوں۔”
”میرا نام کرنل حمید ہے، میں تم سے پوچھتا ہوں کہ تم کس طرح اس شہر کو چلا رہے ہو۔” اپنا تعارف کروانے کے بعد اب کرنل حمید کے لہجے میں بہت تندی و تیزی آ گئی۔ ”پولیس کے بھیس میں تم غنڈوں کا گینگ چلا رہے ہو …جو کسی کو بھی اٹھا کر پولیس اسٹیشن میں بند کر دیتے ہیں۔”
عمر کا چہرہ سرخ ہو گیا۔
”اتنی لمبی بات کرنے کے بجائے تم صرف یہ بتاؤ کہ تمہارا پرابلم کیا ہے؟” عمر نے اس کی بات کاٹ کر۔ تمام ادب آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے تم کہہ کر مخاطب کیا۔ ”میرے پاس اس طرح کی باتیں سننے کے لئے وقت نہیں ہے۔”
”حالانکہ تمہارے پاس وقت ہی وقت ہونا چاہیے۔ کام تو تمہارے لئے تمہارے گرُگے کر ہی دیتے ہیں۔”
کرنل حمید کو اس کے اکھڑ لہجے نے کچھ اور مشتعل کیا، شاید اسے توقع تھی کہ عمر اس کے سامنے کچھ مدافعانہ یا معذرت خواہانہ انداز اختیار کرے گا۔
”میں نے تم سے کہا ہے کہ تم لمبی تقریروں کے بجائے صرف کام کی بات کرو ورنہ میں فون بند کر رہا ہوں۔”
”تمہارے آدمیوں نے میرے بیٹے کو پکڑ لیا ہے، میں دس منٹ میں اپنے بیٹے کو اپنے گھر میں دیکھنا چاہتا ہوں۔
”کیوں پکڑا ہے؟” عمر نے سرد لہجے میں کہا۔
”تم لوگوں نے اس پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ گاڑی چلا رہا تھا اور اس نے ایک آدمی کو زخمی کیا ہے۔ حالانکہ نہ تو وہ گاڑی چلا رہا تھا نہ ہی اس نے کسی آدمی کو زخمی کیا ہے میں ڈائریکٹ آرمی مانیٹرنگ کمیٹی کے پاس جا سکتا تھا مگر میں تمہیں ایک موقع دیتے ہوئے فون کر رہا ہوں کہ تم اسے چھوڑ دو۔”
”کہاں ہے وہ؟” کرنل حمید نے اسے اس پولیس اسٹیشن کا نام بتایا۔
”نام کیا ہے اس کا ؟”
”ارمغان۔”
”عمر؟”
”پندرہ سال۔”
عمر وہاں بیٹھے بیٹھے بھی بتا سکتا تھا کہ کیا ہوا ہو گا۔ اس کم عمر بچے نے گاڑی چلاتے ہوئے کسی کو زخمی کیا ہو گا اور اب کرنل حمید اس بات سے ہی انکاری تھا کہ اس نے ایسا کیا تھا۔
”گاڑی کون چلا رہا تھا؟”
”میرا ڈرائیور۔”
”وہ بھی پولیس اسٹیشن میں ہے؟”
”نہیں اسے کسی نے نہیں پکڑا صرف میرے بیٹے کو پکڑ لیا حالانکہ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر نہیں تھا۔”
”میں چیک کرتا ہوں۔”
”میں نے تمہیں چیک کرانے کے لئے فون نہیں کیا …میں اسے دس منٹ کے اندر اپنے گھر پر دیکھنا چاہتا ہوں۔”
”میرے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ نہیں ہے کہ میں دس منٹ کے اندر اسے تمہارے گھر پہنچا دوں۔” عمر نے تند و تیز لہجے میں کہا۔” اسے پکڑا گیا تو یقیناً اس نے کچھ نہ کچھ تو غلط کیا ہو گا۔ میں صرف یہ دیکھوں گا کہ اس نے کیا کیا ہے، اگر اس نے کچھ نہیں کیا تو وہ تمہارے گھر آ جائے گا لیکن اگر اس نے کچھ کیا ہے تو پھر تمہارا باپ بھی آ کر اسے نہیں چھڑا سکے گا۔” عمر نے اسے چیلنج کرنے والے انداز میں کہا۔
”میرے باپ کو اسے چھڑوانے کی زحمت نہیں کرنی پڑے گی، میں تمہارے باپ کے ذریعے اسے چھڑوالوں گا۔” کرنل حمید نے اس بار تقریباً چلاتے ہوئے کہا۔