Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”ممی! اگر آپ مجھے سمجھانے آئی ہیں تو پلیز یہ کوشش نہ کریں۔” علیزہ نے ثمینہ کو اپنے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر کہا۔ ”میں پہلے ہی آپ کی خاصی نصیحتیں سن چکی ہوں۔”
اس کا اشارہ کچھ دیر پہلے لاؤنج میں ہونے والی گفتگو کی طرف تھا۔ وہ اس وقت اپنے بیڈ کی پشت کے ساتھ ٹیک لگائے ایک میگزین کھولے بیٹھی تھی۔
ثمینہ اس کے پاس آکر بیٹھ گئیں ”نہیں۔ میں تمہیں سمجھانے نہیں آئی۔ تم جنید سے شادی نہیں کرنا چاہتیں تو نہ کرو۔”
علیزہ نے کچھ حیرانی سے ان کے چہرے کو دیکھا۔
”اگر تم اسے پسند نہیں کرتیں تو اس سے تمہاری شادی نہیں ہونی چاہیے۔” انہوں نے سکون سے کہا علیزہ خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔
”میں تمہاری ماں ہوں علیزہ ! مجھ سے زیادہ کسی کو تم سے محبت نہیں ہو سکتی۔” علیزہ اب بھی خاموش رہی۔
”لگتا ہے تمہیں میری بات کا یقین نہیں آیا؟” انہوں نے اس کا چہرہ دیکھا۔
”میں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔” علیزہ نے ایک گہری سانس لی۔
”میں نے ابھی ممی سے بات کی تو مجھے پتا چلا۔”
”کس بارے میں؟”



”انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ تم عمر سے شادی کرنا چاہتی تھیں مگر عمر اس شادی پر رضامند نہیں ہوا۔ ” علیزہ سن ہو گئی۔ اسے توقع نہیں تھی کہ نانو اس طرح اس بات کے بارے میں ثمینہ کو آگاہ کر دیں گی۔
”وہ میری زندگی کی سب سے بڑی حماقت تھی۔” وہ خود کلامی کے انداز میں بولی۔
”کیوں؟”
”اگر مجھے انسانوں کی ذرا بھی پرکھ ہوتی تو میں کم از کم عمر جیسے انسان کے ساتھ شادی کی کبھی خواہش نہ کرتی۔”
”میں ایسا نہیں سمجھتی علیزہ…میں جانتی ہوں۔ تم عمر سے محبت کرتی ہو۔” ثمینہ نے سر ہلاتے ہوئے کہا ”ایسی دلچسپیاں اور پسندیدگیاں کبھی نہیں بدلتیں۔”
”میں اس سے محبت کرتی تھی۔” اس نے ”تھی” پر زور دیتے ہوئے کہا۔ ”وہ شخص اس قابل ہی نہیں ہے کہ اس سے محبت کی جائے…وہ دنیا کے بدترین لوگوں میں سے ایک ہے۔”
ثمینہ نے خاموش ہو کر اسے غور سے دیکھا۔
”مگر میں یہ چاہتی ہوں کہ عمر سے تمہاری شادی کے بارے میں بات کروں۔” ثمینہ نے مستحکم انداز میں کہا۔ علیزہ کو ان کی بات پر کرنٹ لگا۔ اس کے ہاتھ سے میگزین چھوٹ گیا۔
”آپ مجھے دوبارہ بے عزت کرنا چاہتی ہیں۔ میرے لیے ایک دفعہ اس تذلیل اور تکلیف سے گزرنا کافی ہے…بار بار نہیں۔”
”علیزہ تم۔۔۔” ثمینہ نے کچھ کہنے کی کوشش کی علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”ممی ! میں اس شخص سے اتنی نفرت کرتی ہوں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتیں…میں نے صرف اس کی وجہ سے جنید کو چھوڑ دیا ہے…اور آپ چاہتی ہیں کہ میں خود اس سے شادی کر لوں…کبھی نہیں۔”
”کیوں …؟ تم اسے اتنا ناپسند کیوں کرتی ہو…اگر وہ پہلے تمہارے لیے اچھا تھا تو اب برا کیسے ہو گیا…اگر پہلے تم ممی کو اس سے اپنے پرپوزل کے لیے بات کرنے پر مجبور کر سکتی تھیں تو اب کیا ہو گیا ہے کہ میں اس سے اس معاملے پر دوبارہ بات نہیں کر سکتی۔” ثمینہ نے اس بار کچھ بلند آواز میں کہا۔



”میں آپ کو بتا چکی ہوں…اب سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔ میں قطعاً کسی صورت عمر سے شادی کرنا نہیں چاہتی…مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔”
”تمہیں عمر کی ضرورت نہیں ہے۔ تمہیں جنید کی ضرورت نہیں ہے…تو پھر تمہیں آخر ضرورت کس کی ہے؟” اس بار ثمینہ نے کچھ غصے سے کہا۔
”مجھے کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے…میں ہر چیز کے بغیر ہی بہت خوش ہوں۔”
ثمینہ اس کی بات پر ٹھٹھک گئیں۔ ”تمہارا اشارہ میری طرف ہے؟”
”میرا اشارہ ہر ایک کی طرف ہے۔”
”علیزہ! تم آخر مجھ سے اتنی بدظن کیوں ہو۔ میں نے ہمیشہ تمہارا خیال رکھا ہے تمہاری پروا کی ہے…تمہیں ساتھ نہیں رکھ سکی تو اس کی وجہ۔۔۔”
علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔ ”پلیز ممی! میں نے آپ سے کوئی شکایت نہیں کی…نہ ہی مجھے آپ سے کوئی شکایت ہے اور آپ کو غلط فہمی ہے کہ میں آپ کو برا سمجھتی ہوں۔ میں کسی حوالے سے بھی آپ کو برا نہیں سمجھتی…ہر شخص کو زندگی میں Wise Choice کرنی چاہیے۔ آپ نے بھی Wise Choice کی اور ٹھیک کیا…میں آپ کو کسی لحاظ سے قصوروار نہیں ٹھہراتی۔” علیزہ کی آواز دھیمی ہو گئی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!