”نہ آپ کو…نہ پاپا کو…اس لیے آپ اس طرح سوچیں بھی مت۔”
”تو پھر تم میری بات کو اہمیت کیوں نہیں دیتیں؟” ثمینہ نے فوراً کہا۔
”جتنی اہمیت مجھے دینی چاہیے…میں دیتی ہوں…مگر آپ ایک نامناسب اور ناممکن بات کہہ رہی ہیں جو میرے لیے ممکن نہیں ہے۔”
”عمر کے بارے میں بات کرنا نامناسب کیسے ہے؟” ثمینہ نے اکھڑ انداز میں کہا۔
”آپ اگر اس سب سے گزری ہوتیں، جس سے میں گزر رہی ہوں تو آپ کو اندازہ ہو جاتا کہ عمر کے بارے میں بات کرنا نامناسب کیوں ہے۔”
”ماضی کو بھول جاؤ علیزہ۔”
”میں ماضی کو بھول چکی ہوں ممی…! اس لیے تو مجھے یہ بھی یاد نہیں ہے کہ مجھے عمر سے محبت تھی…میرے لیے وہ صرف ایک کزن ہے۔”
”علیزہ! میں چاہتی ہوں، تم بہت اچھی زندگی گزارو۔”
”عمر کے ساتھ میں اچھی زندگی نہیں گزار سکتی…آپ ایسا سوچتی ہیں تو غلط سوچتی ہیں۔” علیزہ نے حتمی انداز میں کہا۔
”مجھے ایک بار اس سے بات تو کرنے دو۔”
”فائدہ…مجھے عمر سے شادی نہیں کرنا…کسی طور بھی نہیں کرنا…میں اس کے ساتھ اپنی زندگی ضائع نہیں کر سکتی۔”
”مجھے یقین نہیں آتا علیزہ کہ ایک بار محبت کرنے کے بعد تم یہ اتنے دھڑلے سے کہہ سکتی ہو کہ تمہیں اس سے محبت نہیں ہے۔”
”میں اس سے بھی زیادہ دھڑلے سے آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ مجھے اب واقعی اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ دنیا صرف عمر سے شروع ہو کر عمر پر ختم نہیں ہو جاتی۔ میں اسے اپنی زندگی سے اٹھا کر باہر پھینک چکی ہوں۔ اس کا ہونا نہ ہونا میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔”
”کاش واقعی ایسا ہوتا۔”
”ایسا ہی ہے ممی…ایسا ہی ہے۔ میں واقعی ذہنی اور جذباتی طور پر عمر سے بہت دور جا چکی ہوں۔” اس نے ثمینہ کو یقین دلانے کی کوشش کی۔ ثمینہ کو اس کی بات کا یقین آیا یا نہیں۔ بہرحال انہوں نے اس سے کہا۔
”اگر عمر سے نہیں تو پھر تم جنید۔۔۔” علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”نہیں۔ میں جنید سے بھی کسی طور شادی نہیں کروں گی…کسی بھی ایسے شخص سے نہیں جو عمر کو جانتا ہو… اس سے واقف ہو یا جو عمر کا چہیتا ہو۔”
”جنید بہت اچھا لڑکا ہے…تم اسے گنوا کر پچھتاؤ گی۔” ثمینہ نے اسے ڈرایا۔
”نہیں۔ میں نہیں پچھتاؤں گی…کم از کم اپنے اس فیصلے پر نہیں پچھتاؤں گی۔ پچھتانے کے لیے پہلے ہی ایک انبار جمع ہو چکا ہے میرے پاس۔ آپ تو اس میں اضافہ نہ کریں۔”
ثمینہ کچھ دیر کے بعد خاموشی سے اٹھ کر باہر آگئیں۔
٭٭٭