Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”بھائی! بابا بلا رہے ہیں تمہیں۔” فری نے اس کے کمرے کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے دروازہ کھول کر اسے پیغام دیا۔
”میں آرہا ہوں۔” وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
”بھائی! یہ سب ہوا کیا ہے۔ ان لوگوں نے اس طرح اچانک شادی ملتوی کیوں کر دی ہے؟” فری نے پریشانی سے پوچھا۔
”فری! اب تم لمبے چوڑے سوال مت شروع کر دینا۔ مجھے کچھ پتا ہوتا تو میں پہلے بتا دیتا۔” جنید نے کچھ اکتائے ہوئے لہجے میں کہا اور ساتھ چل دیا۔
”بابا نے ابھی کچھ دیر پہلے علیزہ کی نانو سے بات کی ہے۔” فری نے اسے اطلاع دی۔ دونوں اب کمرے سے باہر نکل چکے تھے۔
”انہوں نے کیا کہا؟”
”یہ تو مجھے نہیں پتا…بابا اور امی نے اپنے کمرے کے فون پر ان سے بات کی ہے…مجھے بس یہ پتا ہے کہ انہوں نے خاصی لمبی چوڑی بات کی ہے۔” فری نے بتایا۔



”پھر امی نے مجھ سے کہا کہ میں آپ کو بلا کر لاؤں۔” جنید نے اس بار کچھ نہیں کہا۔ وہ چپ چاپ ان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
کمرے کا دروازہ کھولتے ان کے چہروں کو دیکھ کر اسے اندازہ ہو گیا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں تھا۔
”آؤ بیٹھو۔” ابراہیم نے اسے دیکھ کر عجیب سے لہجے میں کہا۔ وہ انہیں دیکھتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا۔
”مسز معاذ سے بات ہوئی ہے ابھی میری۔” انہوں نے بغیر کسی تمہید کے کہنا شروع کر دیا۔
”یہ نوٹس علیزہ نے شائع کروایا ہے۔” وہ رکے…جنید انہیں دیکھتا رہا۔
”انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ تمہارے اور علیزہ کے درمیان کوئی جھگڑا ہوا تھا اور علیزہ نے اس جھگڑے کی بنا پر یہ نوٹس شائع کروایا ہے…علیزہ نے انہیں جھگڑے کی وجہ نہیں بتائی۔ اب وہ میں تم سے جاننا چاہتا ہوں۔”
وہ ساکت ہو گیا۔ اسے اندازہ نہیں تھا جو بات وہ خود ان سے چھپا رہا تھا۔ وہ انہیں نانو سے پتا چل جائے گی…اس کا خیال تھا۔ نانو کوئی بہانہ بنائیں گی۔
”تم سے میں نے پوچھا تو تم نے صاف کہہ دیا کہ تمہارا کوئی جھگڑا نہیں ہوا…میں یہ توقع نہیں کر سکتی تھی کہ جنید! تم میرے اور اپنے بابا سے جھوٹ بولو گے۔” جنید کی امی نے تاسف سے کہا۔
”امی! میرا اس سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ تھوڑی سی غلط فہمی ضرور ہو گئی تھی مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس چھوٹی سی غلط فہمی پر اتنا بڑا قدم اٹھا سکتی ہے۔”
”کوئی بھی لڑکی اتنی بے وقوف نہیں ہوتی کہ کسی چھوٹی سی غلط فہمی پر اتنا بڑا قدم اٹھا لے…اور پھر میں علیزہ سے یہ توقع نہیں کر سکتا کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس طرح کے فیصلے کر سکتی ہے۔ بات یقیناً معمولی نہیں ہو گی۔” ابراہیم صاحب نے اس کی بات کو مکمل طور پر رد کرتے ہوئے کہا۔ ”بہرحال تم بات بتاؤ۔ اس کے بعد ہی میں یہ طے کر سکتا ہوں کہ یہ معمولی سی غلط فہمی ہے یا نہیں۔”
”بابا! وہ عمر کو بہت ناپسند کرتی ہے…یہ آپ بھی جانتے ہیں۔” جنید نے سوچ سوچ کر بولنا شروع کیا۔ ”دو تین دن پہلے میں اسے شاپنگ کے لیے ساتھ لے کر گیا تھا۔ وہاں اس نے مجھ سے عمر کے ساتھ دوستی ختم کر دینے کو کہا۔ میں نے عمر اور اس کے درمیان ناراضی دور کرنے کی کوشش کی…اور میں نے اسے بتایا کہ عمر اس کا بہت خیال رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ میری شادی کروانے میں بھی عمر کی خواہش کا دخل تھا۔”



”کیا مطلب؟” جنید کی امی یکدم حیران ہوئیں۔ ”عمر کا کیا دخل ہے تم دونوں کی شادی میں؟”
”امی ! عمر نے ہی مجھے علیزہ سے ملوایا تھا…اس کی خواہش تھی کہ میں اس کے خاندان میں شادی کروں…وہ چاہتا تھا کہ ہماری فیملیز اور قریب آ جائیں۔ علیزہ مجھے بھی اچھی لگی…اس لیے میں نے اس سے شادی کا فیصلہ کیا۔ اس دن میں نے علیزہ سے یہی کہا کہ میں عمر سے دوستی کسی صورت نہیں چھوڑ سکتا۔ اسے یہ بات بری لگی، مگر میں نے اسی وقت اس سے معذرت کر لی تھی…مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اسے یہ بات اس حد تک بری لگے گی۔” اس بار جنید کا رویہ معذرت خواہانہ تھا۔
”تمہیں اس سے اس طرح کی فضول باتیں کرنے کی ضرورت کیا تھی۔” بیگم ابراہیم نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا۔ ”بلکہ عمر کے ساتھ اپنی دوستی یا تعلق کو زیر بحث لانے کی ہی کیا ضرورت تھی جب تم یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ یہ سب ناپسند کرے گی۔”
”کم از کم تمہیں یہ سب باتیں صبح ہی ہمیں بتا دینی چاہیے تھیں…جھوٹ کیوں بولا تم نے؟” ابراہیم صاحب کی پریشانی یکدم کچھ کم ہو گئی۔
معاملے کی نوعیت اتنی تشویش ناک نہیں تھی جتنی وہ سمجھ رہے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!