”فرحانہ! تم علیزہ کے ساتھ اس سارے معاملے پر خود بات کرو بلکہ جنید کو بھی ساتھ لے جاؤ۔ مجھے یقین ہے کہ اس کی ناراضی دور ہو جائے گی۔ ” انہوں نے اس بار جنید کی امی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
”آپ ساتھ نہیں چلیں گے؟”
”میں ساتھ تو جاؤں گا مگر یہ اتنا بچکانہ معاملہ ہے تم خود اس کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھا سکتی ہو۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ اس طرح غصے میں آکر اس طرح کی حماقت کرے گی۔ اسے غصہ یا ناراضی تھی بھی تو اسے ہم لوگوں سے اس معاملے پر بات کرنی چاہیے تھی یا مسز معاذ سے ڈسکس کرتی اور اس میں سارا قصور تمہارا ہے تمہیں آخر اس طرح کی بات اس سے کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ تم عمر کے کہنے پر اس سے شادی کر رہے ہو۔” وہ ایک بار پھر جنید سے بات کرنے لگے۔
”اگر اسے عمر ناپسند ہے تو تمہیں اس پر یہ جتانے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ تمہارے لیے علیزہ سے زیادہ اہم ہے۔”
”بابا! میں نے یہ نہیں کہا تھا میں نے تو۔۔۔” ابراہیم نے جنید کی بات کاٹ دی۔
”تم نے کہا ہو یا نہیں مگر اس نے تمہاری بات کو اسی طرح لیا ہے۔”
”ہم سے تم یہ کہتے رہے کہ علیزہ کو یہ نہ بتائیں کہ ہم لوگ عمر سے واقف ہیں یا عمر کا اس گھر میں آنا جانا ہے اور خود تم نے اس سے یہ کہہ دیا کہ تم اس سے عمر کی خاطر شادی کررہے ہو۔”
”تو امی! آپ نے دیکھ لیا مجھے اس کو یہ بتانے کا نتیجہ بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ مجھے اس سے اسی بات کا اندیشہ تھا کہ وہ بہت ناراض ہو گی اگر اسے عمر سے میری دوستی کا پتا چل جاتا تو۔”
”اب اس بات پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ ختم کرو اسے۔” ابراہیم صاحب نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ”میں نے مسز معاذ سے کہا ہے کہ ہم شام کو ان کی طرف آئیں گے۔”
”پھر میں آفس جا رہا ہوں۔ بابا! کیا آپ چلیں گے؟” جنید نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
”ہاں میں بھی چلتا ہوں، آج واقعی بہت دیر ہو گئی ہے۔”
ابراہیم صاحب بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔
”فرحانہ! تم کسی اور کا فون آنے پر بھی ان سے یہی کہتے رہنا کہ علیزہ کی امی کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے شادی کچھ آگے کر دی گئی ہے۔” انہوں نے اپنی بیوی کو ایک بار پھر ہدایت کی۔
٭٭٭
”علیزہ! سکندر کا فون آیا ہے، آکر اس سے بات کرو۔” نانو نے علیزہ کے کمرے کا دروازہ کھول کر اسے اطلاع دی۔
”میں ان سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ آپ انہیں بتا دیں۔”
”میں تو کسی کو کوئی وضاحت نہیں دوں گی جو بھی کہنا ہے، تم خود آکر اس سے کہو۔ جب نوٹس دینے کی جرأت کر لی ہے تو پھر لوگوں سے بات کرنے کی بھی جرأت پیدا کرو۔” نانو نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔”میں تو ہر فون آنے پر تمہیں ہی بلاؤں گی۔ کیونکہ یہ نوٹس تمہارا دیا ہوا ہے۔ پھر میں تمہاری طرف سے وضاحتیں کیوں دوں۔ یہ کام بھی تم خود ہی کرو تاکہ تمہیں احساس تو ہو اس بے عزتی اور شرمندگی کا جس کا سامنا میں کر رہی ہوں۔”
علیزہ کچھ دیر انہیں دیکھتی رہی پھر ایک جھٹکے سے اٹھ کر باہر آگئی۔
لاؤنج میں آکر اس نے فون کا ریسیور اٹھا یا اور دوسری طرف کی کوئی بات سنے بغیر بولتی گئی۔
”ہاں پاپا! وہ نوٹس میں نے دیا ہے کیونکہ میں جنید سے شادی نہیں کرنا چاہتی…اور شادی اس لیے کرنا نہیں چاہتی کیونکہ وہ مجھے پسند نہیں ہے اور آپ ان تما م معاملات کے بارے میں پریشان نہ ہوں۔ بالکل اسی طرح جس طرح آپ پہلے کبھی پریشان نہیں ہوئے۔”
اس نے اپنی بات مکمل کی اور فون کا ریسیور پٹخ دیا۔ اس کی آنکھیں گیلی ہو رہی تھیں۔ نانو لاؤنج کے دروازے میں کھڑی اسے دیکھتی رہیں۔ وہ بات ختم کرنے کے بعد کچھ بھی کہے بغیر واپس مڑی اور تیز تیز قدموں کے ساتھ ان کے پاس سے گزرتی ہوئی لاؤنج سے باہر نکل گئی۔
”اگر کسی کا بھی فون ہو تو آپ مجھ سے بات کروا دیں۔ میں سب سے بات کر لوں گی۔ آخر آپ کو یا ممی کو میری وجہ سے یہ زحمت کیوں کرنی پڑے، آپ ٹھیک کہتی ہیں۔”
نانو نے اپنے پاس سے گزرتے ہوئے علیزہ کو کہتے سنا۔ انہوں نے مڑ کر اسے کو ریڈور میں سے گزرتے ہوئے دیکھا۔