Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ علیزہ کی شادی کے لئے تو ثمینہ بھی کل پاکستان آ گئی ہے تو کیا اب ہم اس طرح کے نوٹس دیں گے۔” انہوں نے تیزی سے کہا۔ ”کسی نے ہمارے ساتھ شرارت کی ہے۔” انہوں نے ایک نظر اس نوٹس پر ڈالتے ہوئے غصے اور پریشانی سے کہا۔
عمر سنجیدگی سے ان کی بات سنتا رہا۔ ”نہیں گرینی ! یہ شرارت نہیں ہو سکتی …کوئی اخبار بھی اتنا غیر ذمہ دار نہیں ہو سکتا کہ کسی تصدیق کے بغیر نوٹس شائع کر دے۔ کہیں یہ نوٹس علیزہ نے تو شائع نہیں کروایا۔” اسے اچانک خیال آیا۔
”علیزہ نے …؟ نہیں، علیزہ کیوں کروائے گی۔” نانو نے کہا۔
”وہ اس وقت کہاں ہے؟” عمر نے پوچھا۔ ”وہ سو رہی ہے۔ میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ رات کو ہم سب لوگ دیر سے سوئے ہیں میں اسے جگا کر اس نوٹس کے بارے میں پوچھتی ہوں۔” انہوں نے کہا۔
”نہیں آپ فی الحال اسے مت جگائیں۔ میں چند منٹوں میں آپ کو دوبارہ فون کر کے بتاتا ہوں کہ یہ نوٹس کس نے شائع کروایا ہے۔”



عمر نے ان سے کہا اور پھر فون بند کر دیا۔ فون بند کرتے ہی اس نے اپنے پی اے کو اندر بلایا۔
”خالد ! یہ ایک نوٹس شائع ہوا ہے ان تینوں چاروں اخباروں میں …تم ان میں سے کسی اخبار کے آفس میں فون کر کے پتا کرو کہ یہ نوٹس کس نے شائع کرنے کے لئے دیا تھا۔ ان لوگوں نے یقیناً اس کے شناختی کارڈ کا نمبر یا اس کی فوٹو کاپی بھی لی ہو گی۔ تم ذرا مجھے یہ پتا کروا دو …اور دس منٹ کے اندر اندر۔” اس نے اپنے پی اے کو یہ ہدایات دیں، وہ اخبار لے کر باہر نکل گیا۔
عمر کچھ الجھن کے عالم میں اپنی کرسی کو گھماتا رہا۔ ٹھیک دس منٹ کے بعد پی اے دوبارہ اندر داخل ہوا۔
”سر ! یہ ایک خاتون نے دیا تھا۔ ان کا نام علیزہ سکندر ہے۔”
عمر نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”بس ٹھیک ہے اب تم جاؤ۔” وہ اب دوبارہ فون اٹھا رہا تھا اور اس بار اس کے چہرے پر پہلے سے زیادہ تشویش تھی، آپریٹر نے چند منٹوں میں ایک بار پھر کال ملا دی۔ نانو اس کی کال کی منتظر تھیں۔
”ہاں عمر !” انہوں نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”کچھ پتا چلا؟”
”گرینی ! یہ علیزہ سکندر کی طرف سے دیا گیا ہے۔”
نانو کچھ نہیں بول سکیں۔ ”علیزہ کی طرف سے؟” چند لمحوں کے بعد انہوں نے بے یقینی سے کہا۔
”اس نے آپ سے ایسی کوئی بات کی تھی؟”
”نہیں …اس نے مجھ سے ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔ وہ تو شادی کی تیاریوں میں مصروف تھی۔”
”جنید کے ساتھ اس کا کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا؟”
”ہاں …دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا تو ہوا ہے۔”
وہ چونک گیا۔ ”کب؟”
”پرسوں۔”
”پرسوں …وہ اس کے ساتھ شاپنگ کے لئے گئی ہوئی تھی۔ پھر رات کو واپس آئی تو بہت چپ چپ تھی۔ جنید سے مجھے پتا چلا کہ وہ اس سے ناراض تھی۔” نانو نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
”مگر کل تو وہ جھگڑا ختم ہو گیا تھا۔ اس نے جنید کو فون کیا تھا۔ دونوں کے درمیان بات ہوئی تھی،” نانو اب الجھ رہی تھیں۔
”آپ نے جنید سے یا علیزہ سے جھگڑے کی وجہ پوچھی؟”
”میں نے جنید سے تو نہیں پوچھی مگر علیزہ سے پوچھی تھی لیکن اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔” نانو نے کہا۔
”میں اسے جگا کر پوچھتی ہوں کہ یہ کیا حرکت ہے آخر اس نے یہ کیوں طے کر لیا ہے کہ اس نے ہمیشہ مجھے پریشان ہی کرتے رہنا ہے۔” نانو کو اب اس پر غصہ آنے لگا تھا۔
”گرینی ! آپ اسے اٹھائیں ضرور مگر جھڑکنے کے بجائے اسے سمجھانے کی کوشش کریں، بلکہ پھوپھو سے کہیں کہ وہ اسے سمجھائیں …زیادہ برا بھلا مت کہیں۔” عمر نے ان سے کہا۔
”جتنا مجھے اس لڑکی نے پریشان کیا ہے، کسی نے نہیں کیا۔ اسے اندازہ ہی نہیں کہ اس کی اس بچگانہ حرکت کے کتنے برے نتائج نکل سکتے ہیں۔ جنید کی فیملی کیا سوچے گی ہمارے بارے میں …اور خود علیزہ کے بارے میں۔” نانو کو تشویش ہو رہی تھی۔



”اب تک یقیناً وہ بھی اس نوٹس کو دیکھ چکے ہوں گے۔ تم خود سوچو کہ میں ان کا سامنا کیسے کروں گی۔”
”آپ جنید کی فیملی کے بارے میں پریشان نہ ہوں …میں انہیں ابھی فون کرتا ہوں،میں انہیں سمجھا لوں گا۔ ان کی طرف سے آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ وہ بہت اچھے لوگ ہیں۔” عمر نے نانو کی پریشانی کم کرنے کی کوشش کی۔
”لیکن ابھی جو کالوں کا تانتا بندھ جائے گا پورے خاندان کی طرف سے تو اس کا میں کیا کروں گی؟”
”آپ صرف یہ کہہ دیں کہ شادی ایک ماہ آگے کر دی گئی ہے۔ اگلی ڈیٹ کے بارے میں انہیں بعد میں بتا دیا جائے گا۔” عمر نے انہیں مشورہ دیتے ہوئے کہا۔
”اور وہ وجہ پوچھیں گے تو؟”
”گرینی ! کوئی بھی وجہ بتا دیں۔ لوگوں کے پاس اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ وہ تصدیق کرتے پھریں۔” عمر نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔
”اور جو ایاز اور میرے دوسرے بیٹے فون کر کے پوچھیں گے ان سے میں کیا کہوں …ان سے تو میں جھوٹ نہیں بول سکتی۔”
”پہلے آپ علیزہ کو جگا کر اس سے بات کریں۔ پھر یہ سوچیں کہ آپ کو کس سے کیا کہنا ہے؟” عمر نے کہا۔
”میں اب جنید کو فون کر رہا ہوں …تا کہ اسے بھی کچھ تسلی دے سکوں اگر اس نے یا اس کے گھر والوں نے یہ خبر پڑھ لی ہے تو وہ بھی بہت پریشان ہوں گے اس وقت۔”
عمر نے بات ختم کرتے ہوئے خدا حافظ کہا اور پھر فون رکھ دیا۔
***

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!