Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

جنید گیراج سے گاڑی نکالنے کے بعد اندر آیا تھا، جب اس نے اپنے موبائل کی بیپ سنی۔ دوسری طرف عمر تھا جنید کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ بھی نوٹس پڑھ چکا ہو گا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد جنید نے چھوٹتے ہی اس سے پوچھا۔ ”نانو نے شادی کو ملتوی کیوں کیا ہے؟” وہ عمر اور علیزہ کی طرح انہیں نانو ہی کہتا تھا۔
”گرینی نے ایسا نہیں کیا۔”
”تو پھر کس نے کیا ہے؟” جنید نے حیران ہو کر پوچھا۔
”علیزہ نے۔”
جنید کچھ بول نہیں سکا عمر کو اس پر یکدم اس طرح چھا جانے والی خاموشی کچھ عجیب لگی۔
”اس نے ایسا کیوں کیا ہے؟” جنید نے کچھ دیر بعد مدھم آواز میں کہا۔
”یہی تو میں تم سے جاننا چاہتا ہوں۔”
”میں تمہیں کیا بتا سکتا ہوں، تم اس سے پوچھو۔”
”میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں…تم دونوں کا کوئی جھگڑا ہوا تھا؟” عمر نے براہ راست موضوع پر آتے ہوئے کہا۔
”عمر ! میرا اس سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا۔ صرف پرسوں میں نے اسے یہ بات بتا دی تھی کہ تم میرے بہت پرانے دوست ہو۔”



”کیا؟” عمر بے اختیار چلایا۔
”ہاں میں نے اسے یہ بات بتا دی۔”
”اور کیا بتایا ہے تم نے اسے؟”
”میں نے اس کے دل سے تمہارے خلاف غلط فہمیاں نکالنے کی کوشش کی، وہ تمہیں اپنا دشمن سمجھ رہی تھی۔ میں نے اس سے یہ کہا کہ میری اور اس کی شادی طے کروانے میں بھی تمہارا ہاتھ ہے اور اگر تم اس کے دشمن ہوتے تو تم ایسا کیوں کرتے۔”
”تم دنیا کے سب سے احمق انسان ہو۔” عمر نے غصے کے عالم میں اس کی بات کاٹی۔
”تمہیں اس طرح کی فضول باتیں کرنے کی کیا ضرورت تھی؟”
”فضول باتیں؟ یہ کوئی فضول بات تو نہیں ہے۔ میں نے اسے تھوڑے سے حقائق بتانے کی کوشش کی تھی۔” جنید نے کہنا چاہا۔
”تم اپنے حقائق اپنے پاس رکھا کرو…جب تم سے میں نے کہا تھا کہ تم اس سے میرے بارے میں کبھی کوئی بات مت کرنا تو پھر تمہارا دماغ کیوں خراب ہو گیا تھا۔”
”عمر! ساری عمر یہ جھوٹ نہیں چل سکتا تھا، اسے شادی کے بعد بھی تو پتا چلنا ہی تھا۔”
”بعد کی بات اور تھی…اور ضروری نہیں ہے کہ بعد میں بھی اسے بتایا جاتا اور ہو سکتا ہے کچھ عرصے بعد اس کی ناراضی ختم ہو جاتی۔” عمر نے ناراضی کے عالم میں اس سے کہا۔
”مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس قدر ناراض ہو سکتی ہے۔” جنید نے شکست خوردہ انداز میں کہا۔
” مجھے تھا اسی لیے میں نے تمہیں منع کیا تھا مگر تمہیں تو کوئی پروا نہیں ہوتی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں۔”
”بہرحال اب تو میں کچھ نہیں کر سکتا۔ جو کچھ ہو چکا ہے، وہ ہو چکا ہے۔” جنید نے کہا۔
”تمہارے گھر میں پتا چل گیا ہے اس نوٹس کے بارے میں؟”
”ظاہر ہے…امی نے صبح اخبار میں پڑھا تھا۔”
”کیاری ایکشن ہے ان کا؟”



”بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے بابا کو بھی بتا دیا ہے، ہم لوگ ابھی نانو کی طرف ہی جا رہے ہیں۔” جنید نے اس سے کہا ”اور میں نے انہیں ابھی تک اس نوٹس کی وجہ نہیں بتائی۔ وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ مجھے اس نوٹس کی وجہ کا کچھ پتا نہیں اور نہ ہی میرا اور علیزہ کا کوئی اختلاف ہوا ہے۔”
”جنید! تم ان سے کہو کہ ابھی وہ گرینی کی طرف نہ جائیں۔” عمر نے کہا۔ ”میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے گرینی سے بات کی ہے۔ علیزہ اس وقت سو رہی تھی۔ میں نے ان سے کہا تھا کہ وہ پہلے علیزہ کی امی سے بات کریں اور پھر علیزہ سے بات کریں اگر ابھی تم لوگ وہاں چلے گئے تو معاملہ زیادہ بگڑے گا۔ تم ان سے کہو، وہ ابھی وہاں نہ جائیں۔”
”لیکن میں انہیں کیا کہہ کر روکوں۔ تمہارا ریفرنس دے کر روکوں؟”
”ہاں تم کہہ دینا کہ تمہاری مجھ سے بات ہوئی ہے۔ میں گرینی سے کہتا ہوں کہ وہ خود آنٹی کو فون کریں لیکن ابھی کچھ دیر کے بعد…فوری طور پر نہیں۔” عمر نے اسے ہدایت دی۔



”ٹھیک ہے میں امی سے بات کرتا ہوں۔” جنید نے اسے کہا۔ پہلے کی نسبت وہ اب کچھ مطمئن نظر آ رہا تھا۔
”بس میں پھر ابھی کچھ دیر بعد تمہیں رنگ کروں گا۔ اگر اس نوٹس کی وجہ سے کوئی کالز تمہارے گھر آئیں تو تم آنٹی سے کہو کہ وہ یہی کہیں کہ شادی اگلے مہینے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ کوئی بھی وجوہات ہو سکتی ہیں۔” اس نے فون بند کرتے کرتے کہا۔
”اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے…سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اس نے غصے میں آکر یہ قدم اٹھا لیا ہے۔ تھوڑا سمجھائیں گے تو اس کا غصہ ختم ہو جائے گا۔” وہ اب علیزہ کا دفاع کر رہا تھا۔
”اور پھر اس میں زیادہ قصور خود تمہارا ہے جب تمہیں ایک بار میں نے منع کیا تھا تو پھر تمہیں اس طرح کی بات کرنی ہی نہیں چاہیے تھی۔ نہ تم ایسی بات کرتے نہ وہ غصے میں آکر اس طرح کی حرکت کرتی۔ بہرحال میں تم سے کانٹیکٹ میں ہوں۔ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔”
اس نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔ جنید کو تسلی دینے کے باوجود خود وہ زیادہ مطمئن نہیں تھا۔ یہ ایسی صورت حال تھی جس کا اس نے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔ اسے سب سے زیادہ شرمندگی جنید اور اس کی فیملی سے محسوس ہو رہی تھی۔ کم ازکم ان کا ایسا کوئی قصور نہیں تھا کہ وہ اس طرح کی پریشانی کا سامنا کرتے۔ جنید کی فیملی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ جنید عمر کے کہنے پر علیزہ سے شادی کر رہا تھا۔ ان کا یہی خیال تھا کہ جنید کو وہ پسند آگئی تھی اس لیے وہ اس سے شادی کرنا چاہ رہا تھا۔ ورنہ شاید اس وقت عمر کی پوزیشن زیادہ خراب ہوتی مگر وہ جنید کے سامنے خفت محسوس کر رہا تھا۔
کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے ہونٹ بھینچے وہ بہت دیر تک اس ساری صورتحال کے بارے میں سوچتا رہا، آخر وہ جنید کو کس طرح اس پریشانی سے نکال سکتا تھا۔ جس کا شکار وہ درحقیقت عمر کی وجہ سے ہوا تھا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!