Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”آپ کو بیگم صاحبہ بلا رہی ہیں۔” دستک کی آواز پر علیزہ نے دروازہ کھولا۔ ملازم کھڑا تھا۔
”تم جاؤ میں آرہی ہوں۔” اس نے مڑ کر وال کلاک پر ایک نظر ڈالی، آج اسے اٹھنے میں واقعی دیر ہو گئی تھی۔
پندرہ منٹ بعد جب وہ لاؤنج میں آئی تو اس نے نانو اور ممی کو وہاں بیٹھے دیکھا، وہ بے حد متفکر نظر آرہی تھیں۔ ایک لمحہ کے لیے علیزہ کی ان سے نظریں ملیں پھر وہ ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گئی جہاں ناشتہ لگا ہوا تھا۔ ممی اخبار اٹھا کر اس کی طرف آگئیں۔
”یہ کیا حرکت ہے علیزہ؟”
”کون سی حرکت؟” اس نے ڈبل روٹی پر جیم لگاتے ہوئے کہا۔ وہ اس وقت تک ان دونوں کی وہاں موجودگی اور ان کے چہروں پر نظر آنے والی تشویش کی وجہ جان چکی تھی۔
”یہ نوٹس…جو تم نے شائع کروایا ہے۔” ثمینہ اخبار اس کے سامنے ٹیبل پر رکھتے ہوئے خود بھی ایک کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں۔ علیزہ نے نوٹس پڑھنے کے بجائے اخبار کو ہاتھ سے ایک طرف کر دیا اور سلائس پر جیم لگانا جاری رکھا۔
”اپنی شادی کینسل کر دی ہے تم نے؟” ثمینہ نے اس بار قدرے تیز آواز میں کہا۔



”اور تمہاری اتنی جرأت کیسے ہوئی کہ تم میرا نام استعمال کرکے اس طرح کے نوٹس دو۔ اپنے نام سے دیتیں یہ نوٹس۔۔۔” اس بار نانو بھی غصے کے عالم میں اٹھ کر ڈائننگ ٹیبل کے پاس آگئیں۔
علیزہ پر ان کے غصے کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ”میں اپنے نام سے یہ نوٹس دے سکتی تھی مگر اس پر آپ کو یہ اعتراض ہوتا کہ میں اتنی دیدہ دلیر ہو گئی ہوں کہ اپنے نام سے ایسے نوٹس دیتی پھر رہی ہوں۔” اس نے اطمینان سے سلائس کھاتے ہوئے کہا۔
”آخر تم نے اس طرح کی حرکت کیوں کی ہے؟” ثمینہ نے اس بار کچھ بے چارگی سے کہا۔
”صرف اس لیے کیونکہ میں اس شخص سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔”
”یہ سب تمہیں اب یاد آیا ہے جب شادی میں دو ہفتے رہ گئے ہیں۔ پہلے بتانا چاہیے تھا تمہیں کہ تم اس شخص سے شادی نہیں کرنا چاہتیں۔” نانو نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ ”اور یہ شادی تم سے پوچھ کر طے کی گئی تھی…تمہارے سر پر تھوپا تو نہیں گیا تھا جنید کو…رشتہ طے ہونے سے پہلے ملتی رہی ہو تم…جب مطمئن ہو گئیں تب یہ رشتہ طے کیا گیا بلکہ میں نے تم سے اس وقت بھی یہ کہا تھا کہ اگر تمہیں کوئی اور پسند ہے تو مجھے بتا دو۔ ہم تمہاری شادی وہاں طے کر دیں گے۔ اس وقت تمہیں جنید پر کوئی اعتراض نہیں تھا اور اب تم کہہ رہی ہو کہ تم اس سے شادی نہیں کرنا چاہتیں؟” نانو رکے بغیر بولتی رہیں۔
”آخر تم نے یہ کیوں طے کر لیا ہے کہ تم ہمیشہ مجھے اور دوسروں کو پریشان کرتی رہو گی؟”
”میں کسی کو پریشان نہیں کر رہی۔ شادی میرا ذاتی معاملہ ہے، اس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا مکمل حق ہے۔” اس بار علیزہ نے ہلکی سی ترشی کے ساتھ کہا۔
”اس حق کو اس طرح استعمال کرنا تھا تمہیں۔”



”ممی مجھے بات کرنے دیں اس سے۔” اس بار ثمینہ نے نانو کو روکا۔ ”تمہیں اندازہ ہے کہ تمہاری اس حرکت سے ہمارے اور جنید کے گھر والوں پر کس طرح کا اثر ہوگا۔” ثمینہ نے تلخی سے کہا۔
”لوگ کس طرح کی باتیں کریں گے۔۔۔” علیزہ نے ہاتھ اٹھا کر انہیں بات کرنے سے روکا۔ ”اوہ کم آن ممی…ہم کسی مڈل کلاس فیملی سے تعلق نہیں رکھتے کہ میری اس حرکت سے ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔” اس نے ناگواری سے کہا۔
”ہماری فیملی میں اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو کوئی مائنڈ نہیں کرتا۔ کیا نہیں ہو جاتا ہمارے طبقے میں اور آپ ایک معمولی بات پر اس طرح مجھے ملامت کرنے بیٹھ گئی ہیں۔” اس نے اب اپنا سلائس پلیٹ میں رکھ دیا۔
”ویسے بھی تو اتنی طلاقیں ہوتی رہتی ہیں اگر میں نے صرف منگنی توڑ دی ہے تو اس میں کون سی بڑی بات ہو گئی ۔ ”علیزہ! منگنی توڑنے کا بھی ایک وقت، ایک طریقہ ہوتا ہے…جس طرح تم۔۔۔”
علیزہ نے ایک بار پھر ثمینہ کی بات کاٹ دی ”میں آپ سے کہتی کہ میری منگنی توڑ دیں تو آپ توڑ دیتے؟ بالکل نہیں آپ اس وقت بھی یہی سب کچھ کہہ رہے ہوتے۔”
”آخر تمہیں ایک دم کس چیز نے مجبور کیا ہے کہ تم اتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہو۔۔۔” اس بار نانو نے کہا۔
”کوئی نہ کوئی وجہ تو ہو گی۔ میں احمق تو ہوں نہیں کہ صرف ایڈونچر کے لیے ایسی حرکت کروں۔”
”وہی وجہ پوچھ رہی ہوں۔”
”نانو! آپ وجہ ہیں۔” نانو اس کی بات پر ہکا بکا ہو گئیں۔
”میں وجہ ہوں؟” انہوں نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!