”ہاں آپ وجہ ہیں…جنہوں نے ہمیشہ مجھے پانچ سال کی بچی کے علاوہ اور کچھ سمجھا ہی نہیں” علیزہ نے تلخی سے کہا۔
”تم۔۔۔” علیزہ نے ان کی بات کاٹ دی۔
”آپ نے عادت بنا لی ہے کہ مجھ سے ہر بات میں جھوٹ بولیں گی۔ ہر معاملے میں مجھے اندھیرے میں رکھیں گی…شاید آپ کا خیال ہے کہ میں اس قابل ہی نہیں ہوں کہ حقیقت سے مجھے آگاہ کر دیا جائے۔”
”تم کس قسم کی باتیں کر رہی ہو؟” نانو نے اس بار گڑبڑاتے ہوئے کہا۔
”میں ٹھیک کہہ رہی ہوں۔ اگر صبر کا کوئی پیمانہ ہے تو میرا پیمانہ اب لبریز ہو چکا ہے۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ کم از کم اب آپ لوگ مجھے اپنے طریقے سے زندگی گزارنے دیں۔ اپنی انگلیوں پرکٹھ پتلی کی طرح باندھ کر مجھے نچانے کی کوشش مت کریں۔”
”علیزہ! تم آخر کہنا کیا چاہتی ہو؟”
”میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ آپ نے مجھ سے یہ بات کیوں چھپائی کہ جنید عمر کا دوست ہے؟” نانو دم بخودرہ گئیں۔
”اور عمر نے آپ سے میری اور اس کی شادی کروانے کے لیے کہا ہے۔ جب آپ جانتی تھیں کہ میں عمر کو کس حد تک ناپسند کرتی ہوں تو پھر آپ نے مجھے جنید کے معاملے میں دھوکے میں کیوں رکھا۔”
اس کی ناراضی میں اب اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔
”میں اس آدمی کی شکل تک دیکھنا نہیں چاہتی اور آپ مجھے اس کے بیسٹ فرینڈ کے پلے باندھ رہی ہیں…اور وہ بھی مجھ سے پوچھے بغیر۔” وہ رکے بغیر کہتی گئی۔ ”آپ ہمیشہ یہ ظاہر کرتی رہیں کہ جنید اور اس کی فیملی کو آپ پہلے کبھی جانتی ہی نہیں تھیں جبکہ آپ ان سے اچھی طرح واقف تھیں۔ میں سوچتی تھی کہ جنید کتنی جلدی آپ سے اتنا بے تکلف ہو گیا ہے۔ حالانکہ یہ بے تکلفی تو کئی سالوں کی تھی۔”
”علیزہ ! تمہیں یہ سب کچھ کس نے بتایا ہے؟ یقیناً کسی نے تمہیں گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔” نانو نے کچھ دیر بعد اس شاک سے سنبھلتے ہوئے کہنے کی کوشش کی۔
”مجھے یہ سب کچھ خود جنید نے بتایا ہے…اس نے مجھے گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب بھی اس کے بارے میں کچھ کہنا چاہیں تو کہہ دیں۔ ہو سکتا ہے مجھے ہی ہمیشہ کی طرح کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔”
”عمر نے مجھے جنید سے تمہاری شادی کے لیے مجبور نہیں کیا تھا۔” نانو نے مدافعانہ انداز میں کہنا شروع کیا انہیں اندازہ تھا کہ علیزہ اب ان کی ہر بات کو شبہ کی نظر سے دیکھے گی۔ ”اس نے صرف مجھ سے یہ کہا تھا کہ میں تمہیں جنید سے ملواؤں…اگر تم لوگوں کے درمیان کچھ انڈر سٹینڈنگ ہوئی تو پھر اس رشتہ کو طے کیا جا سکے مگر مجبور نہیں کیا۔” نانو بولتی رہیں۔ ”جنید ہر لحاظ سے ایک اچھا لڑکا تھا۔ نہ صرف وہ خود بلکہ اس کی فیملی بھی…میں واقعی اسے بہت سالوں سے جانتی تھی اس لیے میں عمر کو انکار نہیں کر سکی…تم پر یہ بات ظاہر نہیں کی گئی تھی مگر شادی کے سلسلہ میں تم پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ تم سے یہ نہیں کہا گیا کہ تم صرف جنید سے ہی شادی کرو…اور کسی کے ساتھ نہیں کر سکتیں۔ میں نے انتخاب کا حق تمہیں دیا تھا اور تم نے خود جنید کے حق میں فیصلہ کیا تھا۔”
”مگر میں یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ عمر کا انتخاب ہے۔” علیزہ نے کہا۔
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔”
”فرق پڑتا ہے…آپ کو نہیں پڑتا…مگر مجھے فرق پڑتا ہے اور آپ نے اس ایک سال کے عرصے میں ایک بار بھی مجھے یہ بتانے کی کوشش نہیں کی کہ۔۔۔”
نانو نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”تمہیں بتانے سے کیا ہوتا۔ تم اس وقت بھی یہی کرتیں جو تم اب کر رہی ہو۔”
”ہاں میں اس وقت بھی یہی کرتی جو میں اب کر رہی ہوں۔” علیزہ نے غصے سے کہا۔ ”آخر میں ایک ایسے آدمی سے شادی کیوں کروں جو مجھ سے کسی دوسرے کے کہنے پر شادی کر رہا ہے…آپ کو یہ پتا ہے کہ وہ مجھ سے صرف عمر کے کہنے پر شادی کر رہا ہے۔”
”علیزہ! ایسی بات نہیں ہے…کوئی کسی کے کہنے پر کسی سے شادی نہیں کرتا۔” اس بار ثمینہ نے ایک لمبی خاموشی کے بعد مداخلت کی۔
”اس نے مجھے خود یہ بتایا ہے کہ وہ مجھ سے عمر کے کہنے پر شادی کر رہا ہے اور عمر کے کہنے پر وہ مجھ سے ہی نہیں کسی سے بھی شادی کر سکتا تھا۔”
”اس نے ویسے ہی کہہ دیا ہوگا…جنید جیسا لڑکا اس طرح کسی کے کہنے پر کہیں بھی شادی کرنے والوں میں سے نہیں…تمہیں تو اب تک اس کی نیچر کا پتا چل جانا چاہیے۔”
”مجھے ہر چیز کا پتا چل چکا ہے…میں نے اسی لیے یہ فیصلہ کیا ہے…مجھے عمر کے کسی دوست سے شادی نہیں کرنی۔”
”مگر اس میں عمر کا قصور ہے۔ جنید کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔”
”کیوں قصور نہیں ہے…وہ بھی برابر کا قصوروار ہے، اس نے بھی مجھ سے جھوٹ بولا تھا۔”
”اور اس کے گھر والے…انہوں نے کیا کیا ہے؟”
”مجھے اس کے گھر والوں کی پرواہ نہیں ہے۔” علیزہ نے دھڑلے سے کہا۔
”شرم آنی چاہیے تمہیں۔ تم اس کے گھر اتنا آتی جاتی رہی ہو اور اب تم کہہ رہی ہو کہ تمہیں ان کی پروا نہیں ہے۔” نانو نے اسے جھڑکا۔
”تم اور کسی کا نہیں تو میرا ہی احساس کر لو…میں اپنے شوہر کو کیا منہ دکھاؤں گی…وہ ایک ہفتے تک یہاں آرہے ہیں…اور تم۔۔۔”
علیزہ نے ثمینہ کی بات کاٹ دی۔ ”ممی! آپ کے شوہر آپ کا مسئلہ ہیں…مجھے پروا نہیں ہے کہ وہ آپ کے یا میرے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ جہاں تک ان کے پاکستان آنے کا تعلق ہے۔ آپ انہیں فون پر آنے سے منع کر دیں۔ انہیں بتا دیں کہ شادی کینسل ہو گئی ہے۔” علیزہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
”اور وجہ…وجہ کیا بتاؤں میں انہیں؟” ثمینہ نے سلگتے ہوئے کہا۔