”جو مرضی بتا دیں۔”
”علیزہ…علیزہ…! آخر کیا ہو گیا ہے تمہیں…تم اتنی ضدی تو کبھی بھی نہیں تھیں۔” اس بار نانو نے بے چارگی سے کہا۔
”ہاں میں نہیں تھی…مگر اب ہو گئی ہوں۔” اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
”ابھی تمہارے انکلز کے فون آنے لگیں گے ۔ میں کس کس کو کیا کہوں گی…ایاز کا تمہیں پتا ہے وہ۔۔۔” نانو نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
”مجھے ایاز انکل یا کسی بھی دوسرے انکل کی کوئی پروا نہیں ہے۔ یہ میری زندگی ہے، جو چاہوں اس کے ساتھ کروں۔” وہ ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
ثمینہ نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ ”تم ایک بار اپنے فیصلے پر پھر سوچو…تم بہت بڑی غلطی کر رہی ہو۔”
”مجھے پتا ہے…مگر میں پھر بھی یہ غلطی کرنا چاہتی ہوں۔” وہ دوٹوک انداز میں کہتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل چھوڑ کر چلی گئی۔
”ممی! آپ نے اس کی کیسی تربیت کی ہے؟” ثمینہ نے اس کے اٹھتے ہی اپنی ماں سے کہا۔
”تم میری پریشانی میں اپنے الزامات سے اضافہ مت کرو۔ اس کی تربیت صرف میرا فرض نہیں تھا۔ اتنے سالوں میں تمہیں بھی کبھی اس کی تھوڑی بہت خبر لے لینی چاہیے تھی۔ اس کے باپ کی طرح تم بھی ہر ذمہ داری مجھ پر چھوڑ کر بیٹھ گئیں۔” نانو نے تلخی سے کہا۔
”ممی ! آپ کا خیال ہے کہ میں نے اس کا خیال نہیں رکھا۔ اتنی باقاعدگی سے میں فون پر اس سے رابطے میں رہی…کئی بار میں نے چھٹیوں میں اسے اپنے پاس رکھا۔ ہر ماہ میں باقاعدگی سے اس کے لیے پیسے بھجواتی رہی اور آپ کہہ رہی ہیں کہ میں نے ہر ذمہ داری آپ پر چھوڑ دی۔”
”یہ سارے کام تو سکندر بھی کرتا رہا۔ پھر تو وہ بھی اتنا ہی اچھا باپ ہوا جتنی اچھی تم ماں ہو۔”
”ممی پلیز! مجھ پر طنز مت کریں۔” ثمینہ نے سکندر کے نام پر انہیں ٹوکا۔
”تو پھر تم مجھے کیوں مورد الزام ٹھہرا رہی ہو؟”
”میں کسی کو الزام نہیں دے رہی۔ میں صرف اس کا رویہ دیکھ کر پریشان ہو گئی ہوں۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس طرح ضدی ہو گئی ہے…پہلے تو۔۔۔”
”مجھے خود بھی نہیں پتا کہ وہ پچھلے پانچ چھ سالوں میں کیوں اس طرح کی ہو گئی ہے…یہ ضد اس میں پہلے نہیں تھی…نہ ہی اتنی خود سر تھی یہ مگر بس…جب سے معاذ کا انتقال ہوا یہ تو بالکل بدل گئی۔ معاذ تھے تو پھر بھی اور بات تھی…انہیں اس کو ہینڈ ل کرنا آتا تھا…ان کے بعد تو مجھے بہت دقت ہونے لگی…یہ اپنے خاندان پر اس قدر تنقید کرتی ہے۔ شاید یہ اخبار میں کام کرنے کی وجہ سے بھی ہوا ہے۔ پتا نہیں کون کون سی بکواس ہے جو اس تک پہنچتی رہتی ہے۔” نانو نے سر پکڑتے ہوئے کہا۔
”اور اب جو یہ نیا شوشہ چھوڑا ہے۔”
”ممی مجھے یہ بتائیں کہ یہ بات نہیں مانے گی تو کیا ہوگا…کتنی بدنامی ہو گی ساری فیملی میں میری۔۔۔” ثمینہ اب روہانسی ہونے لگیں۔
”میں عمر سے بات کرتی ہوں…وہ یہاں آئے۔” نانو اپنی کرسی سے اٹھنے لگیں۔
”وہ کس لیے آئے؟” ثمینہ حیران ہوئی۔
”وہ آکر اس سے بات کرے۔ سمجھائے اسے۔”
”عمر کی بات سنے گی یہ؟” ثمینہ نے بے یقینی سے کہا۔ ”عمر کی وجہ سے ہی تو اس نے یہ سب کیا ہے…آپ کے سامنے کہا ہے اس نے کہ وہ عمر کی شکل تک دیکھنے پر تیار نہیں ہے اور آپ کہہ رہی ہیں کہ عمر کو بلائیں گی وہ بات کرے گا اس سے۔”
”بس وہی بات کر سکتا ہے…وہی سمجھا سکتا ہے اسے۔۔۔” نانو نے فون کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
”ممی! عمر کو اتنا ناپسند کیوں کرتی ہے یہ…کئی سال پہلے تو اس کی زبان پر عمر کے علاوہ اور کسی کا نام ہی نہیں ہوتا تھا…آپ خود کہتی تھیں کہ عمر سے اس کی بڑی دوستی تھی…پھر آخر ہوا کیا؟”
نانو نے مڑ کر ثمینہ کو دیکھا۔ ”علیزہ عمر سے شادی کرنا چاہتی تھی۔”
”کیا؟” ثمینہ ہکا بکا رہ گئیں۔ ”آپ تو ابھی کہہ رہی تھیں کہ اسے کوئی پسند نہیں تھا۔”
”عمر کے علاوہ اور کوئی پسند نہیں تھا۔” نانو نے فون کا ریسیو اٹھائے ہوئے ثمینہ کے جملے کی تصحیح کی۔ ثمینہ بے تابی سے اٹھ کر ان کے پاس آ گئیں۔
” تو ممی! پھر آپ نے عمر سے اس کی شادی کیوں کروانے کی کوشش نہیں کی؟”
”میں نے بہت کوشش کی تھی…میں نے عمر سے بات کی تھی…اس نے انکار کر دیا۔”
”کیوں؟” ثمینہ بے اختیار چلائیں۔