”وہ اپنے بہترین دوست سے اس کی شادی کروا سکتا ہے۔ خود کیوں نہیں کر سکتا…آپ ہی تو کہتی رہیں۔ وہ علیزہ کا بہت خیال رکھتا ہے۔”
نانو کی آنکھوں میں نمی جھلکنے لگی۔ ”صرف خیال نہیں رکھتا…وہ اس سے محبت کرتا ہے۔” انہوں نے مدھم آواز میں کہا۔
”پھر…ممی پھر انکار کیوں کیا اس نے ؟”
”اس نے کہا کہ میں فیملی مین نہیں ہوں۔ میں اچھا دوست بن سکتا ہوں، مگر اچھا شوہر یا اچھا باپ مجھے بننا نہیں آتا…میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس کی زندگی خراب ہو۔ میرے جیسے ٹمپرامنٹ کے آدمی کے ساتھ وہ نہیں رہ سکے گی۔ دو نامکمل انسان مل کر ایک مکمل زندگی نہیں گزار سکتے نہ کوئی پرفیکٹ فیملی بنا سکتے ہیں اور میں علیزہ یا عمر جیسے کوئی اور بچے نہیں چاہتا۔ وہ زندگی میں بہت کچھ deserve کرتی ہے…اچھا شوہر، محبت کرنے والا خاندان، بچے، سکون…بہت کچھ…اور یہ سب کچھ جنید اس کو دے سکتا ہے میں نہیں…کیونکہ میری طرح جنید کی شخصیتParadoxes کے بلاکس سے مل کر نہیں بنی…میں نے اس سے کہا تھا وہ تم سے محبت کرتی ہے۔ اس نے کہا آج کرتی ہے کل نہیں کرے گی، میرے ساتھ کچھ سال گزارنے کے بعد وہ اسی تنہائی کا شکار ہو جائے گی جس تنہائی کا شکار وہ آپ کے گھر میں ہے۔ میں جس فیلڈ میں ہوں اس میں تو میں اسے وقت تک نہیں دے سکوں گا…اور پھر میری جاب میں مجھے بہت سے ایسے کام کرنے ہوتے ہیں جو اسے ناپسند ہیں…میں نہیں چاہتا وقت گزرنے کے ساتھ وہ اور میں اپنے اس رشتے یا تعلق پر پچھتائیں…میں نے اسے بہت سمجھایا تھا میں نے اس سے کہا تھا جہاں محبت ہو وہاں کمپرومائز ہو جاتا ہے۔ اس نے کہا کہ میں صرف محبت چاہتا ہوں کمپرومائز نہیں۔ میں نے ہر رشتے میں کمپرومائز دیکھا ہے مگر میں اپنے اور علیزہ کے رشتے میں کمپرومائز نہیں دیکھ سکوں گا…اور میں جانتا ہوں میں اس سے شادی کروں گا تو یہی سب کچھ ہوگا۔
میں کسی دوسری عورت کے ساتھ اگر کمپرومائز کی زندگی بھی گزاروں گا تو مجھے وہ تکلیف نہیں ہوگی، جو مجھے علیزہ کے ساتھ ایسی زندگی گزار کر ہو گی…کسی دوسری عورت کی تکلیف دیکھ کر مجھے کوئی احساس جرم نہیں ہو گا…مگر علیزہ میری وجہ سے اگر اسے کوئی تکلیف پہنچے گی تو میں خود کو معاف نہیں کر سکوں گا…پچھتاوے کے ساتھ جینا مجھ جیسے آدمی کے لیے بہت مشکل ہے گرینی۔۔۔” اس نے مجھ سے کہا تھا۔” میں اسے اور کیا سمجھاتی کیا کہتی…پھر میں نے علیزہ سے وہی کہا جو وہ کہلوانا چاہتا تھا۔ میں نے اس سے کہہ دیا کہ عمر اس سے محبت نہیں کرتا اس کے نزدیک وہ صرف ایک دوست ایک کزن ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔”
نانو افسردگی کے عالم میں کہہ رہی تھیں۔
”علیزہ کو اس کی باتوں سے شاک لگا تھا۔ شاید اسے لاشعوری طور پر یہ یقین تھا کہ عمر بھی اس سے محبت کرتا تھا مگر…بس پھر ان دونوں کے درمیان پہلے جیسی کوئی بات نہیں رہی…کچھ واقعات بھی ایسے ہی ہوئے کہ عمر سے اس کی ناراضی بڑھتی گئی۔”
”پھر آپ کو کبھی بھی جنید کے ساتھ اس کی شادی کی کوشش نہیں کرنی چاہیے تھی۔ کبھی بھی نہیں۔ علیزہ کو جب بھی یہ پتا چلتا کہ جنید عمر کا دوست ہے وہ تو اسی طرح مشتعل ہوتی…ممی! آخر آپ نے اس کی فیلنگز کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔” ثمینہ نے احتجاجی انداز میں کہا۔
”مجھے اس کے لیے جنید سے موزوں کوئی اور لگا ہی نہیں…خود علیزہ کو بھی وہ بہت اچھا لگا تھا اور پچھلے ایک سال میں ان دونوں کے درمیان چند ایک اختلافات کے باوجود بہت زیادہ انڈر سٹینڈنگ ڈویلپ ہو گئی تھی…علیزہ اس کے گھر آتی جاتی رہی ہے وہ ان لوگوں کے ساتھ ذہنی طور پر ایڈجسٹ ہو چکی تھی نہ صرف یہ بلکہ میں نے محسوس کیا ہے کہ وہ ان کے ساتھ بہت خوش رہتی ہے…میں نے اس کی خوشی اور سکون کے لیے ہی سب کچھ کیا ہے…وہ لوگ ہم سے بہت اچھے اور بہتر ہیں…ان کا ماحول بہت اچھا ہے۔ علیزہ کو ضرورت تھی ایسے لوگوں کی…کہیں اور شادی کرنے کی کوشش کرتی تو میرے پاس کیا آپشن ہوتے…ہر لڑکا جنید جیسی نیچر اور عادتوں کا مالک نہیں ہوتا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ جتنا کیئرنگ ہے، علیزہ اس کے ساتھ بہت خوش رہے گی…صرف اس لیے میں نے جنید کو دوسرے لوگوں پر ترجیح دی۔”
ثمینہ نے اس بار کچھ نہیں کہا، وہ الجھی ہوئی صوفہ کی طرف بڑھ گئیں۔ نانو عمر کو کال کرنے لگیں۔
”ممی !” ثمینہ نے یکدم انہیں مخاطب کیا۔ نانو نے گردن موڑ کر انہیں دیکھا۔
”کیا آپ ایک بار پھر عمر سے بات نہیں کر سکتیں؟” ثمینہ نے کچھ عجیب سے لہجے میں ان سے کہا۔
”میں اسی سے بات کرنے کے لیے اسے فون کر رہی ہوں۔” نانو نے کہا۔ وہ ایک بار پھر نمبر ڈائل کرنے لگیں۔
”ممی میں اس معاملے کی بات نہیں کر رہی۔”
”تو پھر؟” نانو ایک بار پھر فون کرتے کرتے رک گئیں۔
”کیا آپ عمر سے ایک بار پھر علیزہ کی شادی کی بات نہیں کر سکتیں؟”
”تم کیا کہہ رہی ہو ثمینہ؟”
”ممی ! آپ ایک بار پھر عمر سے بات کریں…اسے یہاں بلائیں۔ اس بار میں بھی اس سے بات کروں گی، ہو سکتا ہے مان جائے۔ اگر علیزہ اس سے محبت کرتی ہے تو کیا یہ بہتر ہے کہ ہم اس کی شادی اسی کے ساتھ کریں۔”
”ثمینہ! علیزہ اس سے محبت کرتی تھی…اب نہیں کرتی…اب وہ جنید سے محبت کرتی ہے۔”
”نہیں وہ جنید سے محبت نہیں کرتی۔ اگر اسے جنید سے محبت ہوتی تو وہ کبھی بھی اس طرح شادی نہ کرنے کا فیصلہ نہ کرتی…وہ یہ فیصلہ کر ہی نہ سکتی…اسے اب بھی عمر سے محبت ہے اور یہ بات آپ اور عمر بھی اچھی طرح جانتے ہیں، پھر کیوں اس کی زندگی کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔” ثمینہ نے کہا۔
”اور جنید…اس کا کیا ہوگا…اگر ایسا ممکن ہو بھی جائے تو اس کا کیا ہو گا تم اس کی تکلیف کا اندازہ کر سکتی ہو؟”
”ممی! مجھے اس کی تکلیف کی کوئی پروا اور کوئی دلچسپی نہیں ہے مجھے صرف اپنی بیٹی کی پروا ہے…مجھے جنید سے ہمدردی ہے مگر…اگر علیزہ اس کے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی تو بہتر ہے وہ اس کے ساتھ نہ رہے۔” ثمینہ نے قدرے خود غرضی اور شاید صاف گوئی سے کہا۔