Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”وہ دونوں ایک ساتھ بہت خوش رہیں گے ثمینہ۔”
”نہیں وہ دونوں ایک ساتھ خوش نہیں رہیں گے اگر آپ عمر سے بات نہیں کریں گی تو میں خود عمر سے بات کروں گی…اور اگر عمر میری بات پر رضا مند نہیں ہوا تو پھر میں جہانگیر سے بات کروں گی یا پھر میں ایاز بھائی سے بات کروں گی۔” ثمینہ نے دوٹوک انداز میں کہا۔
علیزہ جس وقت اپنے کمرے میں واپس آئی اس نے موبائل کو بجتے سنا۔ بیڈ کے پاس آکر اس نے موبائل کو اٹھا کر اس پر آنے والا نمبر دیکھا۔ وہ عمر جہانگیر کا نمبر تھا۔ اس نے بے اختیار اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ کچھ دیر تک وہ ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھتی رہی پھر اس نے اسے آن کر دیا۔



”ہیلو علیزہ…کیسی ہو تم؟” دوسری طرف عمر کی آواز سنائی دی تھی۔
”بہت اچھی ہوں۔۔۔” علیزہ نے بڑی لاپروائی سے کہا۔ اسے خلاف معمول عمر کی آواز سن کر غصہ نہیں آیا تھا بلکہ یہ سوچ کر ایک عجیب سا اطمینان محسوس ہوا تھا کہ اب وہ پریشان ہوگا۔
”تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟” وہ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بولا۔
”بس ایسے ہی…دل چاہ رہا تھا کسی ایڈونچر کے لیے…تمہیں تو اچھی طرح پتا ہے کہ میں کتنی میچور ہوں۔”
”علیزہ ! میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔”
”مگر میں تو کر رہی ہوں۔”
”تمہیں اپنے اس فیصلے کی سنگینی کا احساس ہے؟” عمر نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”بہت اچھی طرح۔” اس کے لہجے کا اطمینان عمر کو ڈسٹرب کر رہا تھا۔
”عمر جہانگیر ! میں تمہارے کسی ”Pet” (پالتو) کے ساتھ شادی کبھی نہیں کروں گی۔”
عمر کچھ بول نہیں سکا۔



”تمہیں مجھ پر اتنے احسان کرنے کا شوق کیوں ہے؟”
”علیزہ! میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا۔”
”تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر تمہارا بیسٹ فرینڈ مجھ سے شادی نہیں کرے گا تو دنیا میں کوئی بھی نہیں کرے گا؟”
”وہ صرف میرا بیسٹ فرینڈ نہیں ہے، وہ ایک بہترین انسان بھی ہے۔” عمر نے سنجیدگی سے کہا۔
”بہترین انسان؟ یا دھوکے باز انسان…؟ تمہارا ہر دوست تمہاری ہی طرح جھوٹا اور فراڈ ہوتا ہے اور ہونا بھی چاہیے ۔” علیزہ نے اس بار قدرے تلخی سے کہا۔
”تم مجھے یہ بتا سکتی ہو کہ تمہارا غصہ کب ختم ہوگا تاکہ میں تم سے اس وقت بات کر سکوں۔” عمر نے اس کی بات کے جواب میں بڑے تحمل سے کہا۔
”مجھے اب کوئی غصہ نہیں ہے۔ میرا غصہ ختم ہو چکا ہے۔ میں اس وقت بہت پرسکون ہوں۔ تمہیں اندازہ نہیں ہو رہا؟”
”جنید کے ساتھ اس طرح کرکے تمہیں بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے؟”
”تمہارے دوست کے ساتھ ایسا کرکے مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔”
”علیزہ! وہ اب صرف میرا دوست نہیں ہے۔ تمہارا بھی کچھ تعلق ہے اس سے۔”
”تعلق تھا…اب نہیں ہے۔” اس نے قطعیت سے کہا۔
”اور یہ چیز میں نے تم سے سیکھی ہے۔ چٹکی بجاتے ہوئے ہر رشتے، ہر تعلق کو ختم کر دینا۔” وہ فون بند کر چکی تھی۔
***

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!