امر بیل ۔قسط۔ ۲۵۔ عمیرہ احمد
”تم آخر کرنا کیا چاہتے ہو عمر؟ ” ایاز حیدر فون پر درشت لہجے میں کہہ رہے تھے۔ ”آخر کتنی بار مجھ تک تمہاری شکایات آئیں گی۔ اب تو مجھے بھی شرمندگی ہوتی ہے جب میں تمہارے سینئرز سے تمہارے بارے میں بات کرتا ہوں۔ ہر بار میں ان سے کہتا ہوں کہ میں تمہیں سمجھا دوں گا…اور ہر بار تم حماقت کی حد کر دیتے ہو۔” عمر خاموشی سے ان کی بات سن رہا تھا۔
ایاز حیدر نے ابھی کچھ دیر پہلے اس کو آفس میں فون کیا تھا اور وہ اسے جھڑک رہے تھے۔ معاملہ پھر کرنل حمید والا ہی تھا۔ عمر کے بارے میں ایک بار پھر اوپر شکایت کی گئی تھی اور آئی جی نے ایک بار پھر ایاز حیدر سے بات کی تھی۔ اس بار وہ بے حد ناراض تھے اور انہوں نے ایاز حیدر کو بتا دیا تھا کہ وہ اب زیادہ عرصے تک عمر کی حمایت نہیں کر سکیں گے۔ وہ عمر کی ٹرانسفر کرنا چاہتے تھے کیونکہ ان کے پاس عمر کی ٹرانسفر کے احکامات آئے تھے۔ انہوں نے اس معاملے میں ایک بار پھر عمر سے بات کرنے کے بجائے ایاز حیدر سے بات کرنا ضروری سمجھا اور اب ایاز حیدر اس سے بات کررہے تھے۔
”انکل! وہ شخص اس قدر بدتمیز تھا کہ۔۔۔” عمر نے کچھ کہنے کی کوشش کی، ایاز حیدر نے غصے کے عالم میں اس کی بات کاٹی۔
”وہ شخص بدتمیز تھا تو تم بڑے تمیز والے ہو۔ تم اس سے بھی بدتر ہو۔ وہ تو صرف بدتمیز تھا۔ تم تو ڈفر اور ڈل بھی ہو۔”
”اگر آپ اس سے بات کرتے تو میری طرح آپ کو بھی غصہ آتا۔”
”آتا ضرور آتا…مگر میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ مجھے کب، کہاں، کس کے سامنے اپنا غصہ دکھانا ہے اور کس سے غصہ چھپانا ہے۔ تمہاری طرح ہر آدمی کے ساتھ جھگڑا میں افورڈ نہیں کر سکتا۔”
”جو بھی ہو انکل…! میں کسی کے باپ کا ملازم نہیں ہوں کہ کوئی مجھ پر چلائے اور وہ بھی ایسا شخص جس کو میں جانتا تک نہیں۔”
”تو برداشت نہ کرنے کا نتیجہ دیکھ لیا ہے تم نے…ٹرانسفر کے آرڈرز آنے والے ہیں تمہارے۔”
”آنے دیں، میں چارج نہیں چھوڑوں گا۔” عمر کو طیش آ گیا۔
”ٹرانسفر آرڈر کے بجائے تم اپنے لیے Suspension orders (معطلی) چاہتے ہو یا پھر termination۔”
”جو مرضی ہو جائے ، میں اس طرح چارج نہیں چھوڑوں گا۔”
”تم آخر چاہتے کیا ہو عمر…کیوں کسی کے ساتھ بنا کر رکھنا نہیں آتا تمہیں۔ کسی نہ کسی کو تم نے اپنے پیچھے لگایا ہوتا ہے۔ پہلے پریس والا تماشا تھا۔ اب فوج کے ساتھ جھگڑا مول لے رہے ہو۔ پتا ہونا چاہیے تمہیں کہ آج کل ہر کام کتنی احتیاط سے کرنا چاہیے ورنہ تم خود تو ڈوبو گے، ساتھ ہمیں بھی ڈبوؤ گے۔”
”میں جتنی احتیاط کر سکتا تھا کر چکا ہوں مگر ان لوگوں کو اپنے علاوہ کوئی اچھا اور پاک صاف لگتا ہی نہیں۔ ہم بھی آفیسر ہیں، کوئی کھیل تماشے کے لیے نہیں بیٹھے ہوئے۔ کام کررہے ہوتے ہیں، ان کا جب دل چاہتا ہے منہ اٹھا کر میرے آفس میں آ جاتے ہیں۔ مجھ پر چلاتے ہیں۔ اگر وہ کرنل ہے تو اسے بھی میرے رینک کا لحاظ ہونا چاہیے۔” عمر شدید غصے میں تھا۔
”اسے پتا ہونا چاہیے کہ مجھ سے کس طرح بات کرنی چاہیے ۔ وہ کسی پولیس کانسٹیبل سے بات کر رہا تھا کہ اس طرح اس پر چلاتا اور وہ بھی اس صورت میں جب غلطی اس کی اپنی تھی اس کا بیٹا ملزم نہیں تھا بلکہ مجرم تھا۔”
”تمہیں معمولی باتوں پر اتنا مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”انکل ! مشتعل ہونے کی بات نہیں ہے۔ میں نے کس طرح اس کے بیٹے کی رہائی کے بعد وہاں مشتعل ہجوم کو کنٹرول کیا ہے۔ آپ یہاں موجود ہوتے تو آپ کو اندازہ ہوتا ہجوم کے اشتعال کا، وہ لوگ پولیس سٹیشن کو آگ لگا دینا چاہتے تھے اور بالکل صحیح کرنا چاہتے تھے۔ ان کی جگہ میں بھی ہوتا تو یہی کرتا۔ ایک بچہ شراب پی کر گاڑی کا ایکسیڈنٹ کرکے ایک آدمی کو مار دیتا ہے اور اس شخص کے لواحقین کی آنکھوں کے سامنے ایک فون آنے پر اس بچے کو کسی پوچھ گچھ کے بغیر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ واقعی صرف یہاں ہی ہو سکتا ہے، اس کے باوجود میں نے اس ہجوم کے پاس خود جا کر ان سے مذاکرات کیے۔ پتا نہیں کتنے جھوٹ بول کر ان کا غصہ ٹھنڈا کیا اور اس آدمی کی لاش کو دفنانے پر مجبور کیا ورنہ وہ لوگ اسے گورنر ہاؤس کے باہر لا کر رکھ دینا چاہتے تھے۔ اس کے باوجود آپ مجھے بتا رہے ہیں کہ میرے ٹرانسفر کے آرڈر آگئے ہیں۔”
”اچھا ، میں نے تمہاری تقریریں سننے کے لیے تمہیں فون نہیں کیا، میں صرف یہ بتا دینا چاہتا ہوں تمہیں کہ تم کرنل حمید سے مصالحت کرو۔ اپنے اس مسئلے کو خوش اسلوبی کے ساتھ حل کرو۔” ایاز حیدر نے ایک بار پھر اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”کمال کرتے ہیں آپ بھی۔” عمر کو ان کی بات پر جیسے پتنگے لگ گئے۔
”مصالحت اسے مجھ سے کرنی چاہیے یا مجھے اس کے ساتھ۔ اگر اس سارے معاملے میں کسی نے بدتمیزی کی ہے تو وہ میں نہیں کرنل حمید ہے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میں اس کے ساتھ مصالحت کروں۔”
اچھا فرض کرو کہ کرنل حمید نے ہی تمہارے ساتھ بد تمیزی کی ہے …پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔”
”کیوں فرق نہیں پڑتا …یہ اس کی غلطی ہے وہ اسے ٹھیک کرے۔ وہ معذرت کرے۔”
”اور وہ ایسا کبھی نہیں کرے گا کیونکہ اس کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”تو میں بھی ایسا کبھی نہیں کروں گا کیونکہ مجھے بھی ایسا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔”
”تم مجھے مجبور کر رہے ہو عمر کہ میں آئی جی سے کہوں کہ تمہیں ٹرانسفر آرڈر نہیں بلکہ سیدھا Termination لیٹر بھجوائیں۔ بلکہ تمہارے خلاف کوئی انکوائری کروائیں تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہاری مدد کی جائے۔ میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں اور تم اپنی بکواس میں مصروف ہو۔”