عمر اور جنید ریسٹورنٹ میں بیٹھے ڈنر کررہے تھے۔
”پھر شادی کی نئی ڈیٹ کب طے ہو رہی ہے؟” عمر نے کانٹے سے مچھلی کے ایک ٹکڑے کو منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔
”پرسوں بابا جا رہے ہیں امی کے ساتھ۔” اس نے سلاد کا ایک ٹکڑا اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔
”ہو سکتا ہے۔ پرانی والی ڈیٹ ہی دوبارہ رکھ دیں۔ ابھی بھی دس دن تو ہیں ایک نوٹس اور دینا پڑے گا۔” جنید نے کہا۔
”نہیں یار! ڈیٹ چینج کرو۔ اس طرح تو ہم لوگ بڑے مشکوک ہو جائیں گے کہ پتہ نہیں پہلے کیوں شادی کینسل کر رہے تھے اور اب کیوں دوبارہ اس ڈیٹ پر کررہے ہیں۔ لوگ یہی سمجھیں گے کہ لڑکی نے کوئی مسئلہ کھڑا کیا ہے۔” عمر ہلکے پھلکے انداز میں بولا۔
”تو مسئلہ کھڑا تو لڑکی نے ہی کیا تھا۔” جنید نے کہا۔
”نہیں جو بھی تھا۔ ہم لڑکی والے ہیں، ہماری پوزیشن خراب ہو گی۔” عمر نے اس کے جملے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
”اس سارے معاملے میں لڑکی والوں کا رول تو ہمارا ہی رہا ہے۔ تم لوگوں کو کیا پریشانی ہوئی ہے، سب کچھ تو ہمیں ہی کرنا پڑا ہے۔ منت سماجت صفائیاں وضاحتیں اور کیا کیا کچھ۔”
عمر نے مچھلی کھاتے کھاتے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔
”you deserved it”
تمہارے ساتھ یہی ہونا تھا کیونکہ کیا دھرا تو تمہارا ہی تھا۔” اس نے سنجیدگی سے جنید سے کہا۔
”میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ اس کو میرے۔۔۔” جنید نے اس کی بات کاٹ دی۔
”تم چور ہو، ڈاکو ہو کیا ہو کہ میں تمہارے ساتھ اپنے تعلق کو اس سے چھپاتا۔”’
”میں پولیس والا ہوں اور وہ مجھے ان دونوں سے زیادہ برا سمجھتی ہے۔” عمر ہنستے ہوئے دوبارہ اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہوا۔
”اگر کسی شخص سے محبت ہو تو اس سے وابستہ ہر چیزسے محبت ہو جاتی ہے۔”
عمر نے کھانا کھاتے ہوئے بے اختیار قہقہہ لگایا۔ جنید اس کے قہقہے پر کچھ جھینپ گیا۔
”اس سے زیادہ گھسا پٹا جملہ تم اس موقع پر نہیں بول سکتے تھے۔ یہ کہاں سے پڑھ لیا ہے تم نے جس سے محبت ہو، اس سے وابستہ ہر چیز سے محبت ہو جاتی ہے۔” وہ اب بھی اس کے فقرے پر محظوظ ہو رہا تھا۔
”میں نے پڑھا نہیں ، میں نے سنا ہے۔”
”تو آپ نے غلط سنا ہے جنید ابراہیم صاحب! ایسا تو غاروں کے زمانے کا انسان بھی نہیں کرتا ہوگا اور آپ بیٹھے ہیں ایک جدید دور میں۔”
”زمانہ بدلا ہے…تعلق، احساسات اور جذبات تو نہیں بدلے۔”
”یہ بھی تمہاری ذاتی رائے ہے، مشینی دور کے انسان کے جذبات بھی بدل چکے ہیں۔”
”جو بھی ہے، اس کو مجھ سے وابستہ لوگوں کی پروا کرنی چاہیے اور تم مجھ سے وابستہ ہو۔”
”اوہ بھئی کیوں کرنی چاہیے کیا تم ایسا کرتے ہو؟” جنید نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔
”میں ان تمام لوگوں سے محبت کرتا ہوں جن سے وہ کرتی ہے۔”
”اچھا؟ تو پھر تمہیں ان تمام لوگوں سے نفرت بھی ہونی چاہیے، جن سے وہ کرتی ہے۔”
جنید لاجواب ہو گیا۔ عمر ایک بار پھر اطمینان سے مچھلی کھانے میں مصروف تھا۔
”آسمان اپنی جگہ چھوڑ دے گا، زمین اپنی جگہ سے ہٹ جائے گی مگر مجھے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ تم علیزہ کے خلاف کچھ کہو گے اور اس کے خلاف میری حمایت کرنا تو ویسے ہی ایک خواب ہے۔”
جنید نے اپنی پلیٹ میں پڑا ہوا چمچ اٹھاتے ہوئے کہا۔ عمر اس کی بات پر مسکرایا۔
”درست…تم یہ کوشش کر کیوں رہے ہو، تمہیں پتہ ہونا چاہیے کہ ہماری فیملی کا سلوگن ہے We are always right اور اپنی فیملی کے ایک ممبر کے خلاف اس طرح ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر میں باتیں کروں، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
جنید نے کچھ نہیں کہا۔ اس نے صرف ایک گہرا سانس لے کر اپنی پلیٹ میں کچھ ساس اور ڈالی، عمر مسکرانے لگا۔
”تمہاری یہ کزن۔۔۔” جنید نے کچھ کہنا چاہا عمر نے بھنویں اچکاتے ہوئے اس کی بات کاٹی۔
”اس بات سے تمہارا کیا مطلب ہے”میری کزن” وہ تمہاری ہونے والی بیوی ہے۔” عمر نے تصحیح کی۔