”او کے، اوکے My bride to be” جنید نے کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔ ”یہ اسی طرح بعد میں کرے گی۔ تو میں کیا کروں گا؟”
”بعد میں کیا کرے گی۔ کم آن جنید! تم لوگوں کے درمیان واحد مسئلہ میں ہوں۔ میں یہاں ہوں گا نہیں تو تم لوگوں کا جھگڑا کس چیز پر ہونا ہے۔”
”تم کہیں اس لیے تو باہر نہیں جا رہے؟” جنید نے اچانک پوچھا۔ ”ورنہ اس طرح چھٹی پر جانے کا تمہارا ارادہ پہلے تو نہیں تھا۔”
”کس قدر ذہین آدمی ہو تم۔” عمر نے اسے سراہا۔ ”میں تو اندازہ ہی نہیں کر سکتا تھا کہ تم اتنی جلدی یہ سب جان جاؤ گے۔”
اس کی نظروں میں اب جنید کے لیے مضحکہ اڑاتی ہوئی ستائش تھی جنید بے اختیار کچھ شرمندہ ہوا۔
”میرا دماغ خراب ہے کہ میں تم دونوں کی خاطر باہر چلا جاؤں گا۔” اس بار عمر نے بدلے ہوئے لہجے میں تیز اور بلند آواز کے ساتھ کہا۔ ”میری ا ے سی آر دیکھو گے تو تمہیں اندازہ ہوگا کہ میں کس طرح گردن تک پھنسا ہوا ہوں اور تم یہاں بیٹھے احمقوں کی طر ح اندازے لگا رہے ہو۔”
”مجھے ایسے ہی ایک خیال آیا۔” جنید نے قدرے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”تم ایسے خیالات سے اپنے دماغ کو خالی رکھا کرو۔” عمر سلاد کی طرف متوجہ ہو گیا۔
”علیزہ ایک اچھی بیوی اور محبت کرنے والی ماں ثابت ہو گی۔”
جنید اس کے تبصرے پر مسکرایا۔
I don’t doubt that (مجھے اس میں شبہ نہیں ہے)
”تو پھر آخر پرابلم ہی کیا ہے، ویسے بھی اگر تمہیں شادی کرنی ہے تو پھر اس طرح کی بے عزتی برداشت کرنے کا عادی ہونا چاہیے۔” عمر بات کرتے کرتے پھر اس کا مذاق اڑانے لگا۔
”جس سے بھی شادی کرو گے فرمانبرداری اور غلامی کی زندگی ہی گزارو گے۔ یہ شادی کی ایک Prerequisite (لازمی جزو) ہے جو ہر مرد کو پوری کرنی ہوتی ہے۔ کم از کم میں نے کوئی ایسا شوہر نہیں دیکھا، جس میں فرمانبرداری کی خوبی نہ پائی جاتی ہو۔”
”تمہیں بہت تجربہ ہے ان تمام معاملات کا۔” جنید نے کچھ چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔
”ہاں بہت زیادہ تجربہ ہے مجھے۔ اپنے اردگرد کے لوگوں سے حاصل کیا ہے، آج میں دوپہر کو عباس کے ساتھ تھا۔ وہ اپنا گھر بنوا رہا ہے، بے چارے نے اپنے بیڈ روم کی کلر سکیم اپنی مرضی کی رکھی۔ تانیہ آج اچانک دیکھنے چلی گئی۔ ہم دونوں لنچ کر رہے تھے جب وہ واپس گھر آئی اور اس نے وہ بے عزتی کی عباس کی کہ اس کی طبیعت صاف ہو گئی۔ بے چارے نے اسی وقت فون کرکے کلر سکیم بدلوانے کا کہا۔” وہ بے حد محظوظ ہوتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
”تمہیں شرم آنی چاہیے عمر! تم مذاق اڑا رہے ہو اپنے کزن کا۔” جنید نے کچھ افسوس سے کہا۔
”مجھے کیوں شرم آنی چاہیے، میں تو بڑے اطمینان سے لنچ کرتا رہا اور عباس کی وضاحتیں اور معذرتیں سنتا رہا۔ یہ وہ عباس تھا جو اپنے پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتا تھا، کوئی اس کے سامنے اونچی آواز میں بات کر لیتا تو ہنگامہ کھڑا کر دیتا اور اب جب تانیہ کو غصہ آتا ہے تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے اور وہ کہہ رہا ہوتا ہے سویٹ ہارٹ، ڈارلنگ، ہنی۔” وہ اب کھلکھلا رہا تھا۔
”پلیز آہستہ…ملازم سن رہے ہیں۔ یہ دیکھو عمر آیا ہوا ہے۔ وہ کیا کہے گا…میں نے تانیہ سے کہا کہ بالکل فکر نہ کرو، نہ ملازم سن رہے ہیں نہ ہی میں کچھ کہوں گا تم اطمینان سے یہ سلسلہ جاری رکھو۔”
اس بار جنید اس کی بات پر ہنس پڑا۔ ”تم بھی بڑے ہی کمینے انسان ہو، تماشا دیکھتے ہو دوسروں کا۔”
”مجھے ان دونوں کاموں کی خاص تربیت دی گئی ہے سول سروس میں اور پولیس میں کمینگی اور تماشا دیکھنے کی اضافی صلاحیت کی وجہ سے ہی شمولیت اختیار کی تھی میں نے یہ صلاحیت نہ ہوتی تب بھی اتنا عرصہ پولیس میں رہ کر خود ہی آجاتی۔”
عمر مینو کارڈ پر نظر ڈالتے ہوئے کہہ رہا تھا، وہ شاید کچھ اور منگوانے کا سوچ رہا تھا۔
”تم شادی کرو گے تو میں دیکھوں گا۔ تم کتنے تیس مار خان ثابت ہوتے ہو، تم بھی اسی طرح کی فرمانبرداری دکھا رہے ہو گے جس پر دوسروں کا مذاق اڑا رہے ہو۔”
”میں اسی لیے شادی کر ہی نہیں رہا ہوں، زندگی آزاد ہی گزارنی چاہیے پابندیوں کے بغیر۔” اس نے ویٹر کو بلا کر ایک اور ڈش کا آرڈر دیتے ہوئے کہا۔