”اور جوڈی اس کا بھی یہی خیال ہے؟” جنید اس بار کچھ سنجیدہ ہو گیا۔
”جوڈی کا ذکر یہاں کہاں سے آگیا؟” عمر نے حیرانی سے کہا۔
”کیوں تم اس سے شادی نہیں کرنا چاہتے؟”
”نہیں…تم جانتے ہو گورنمنٹ سروس میں رہ کر میں کسی غیر ملکی سے تو شادی نہیں کر سکتا۔”
”مگر تم تو اس میں ہمیشہ سے انٹرسٹڈ تھے۔”
”وہ تو اب بھی ہوں…مگر شادی؟ نہیں شاید اگر کبھی سروس چھوڑ دی اور شادی کے بارے میں سوچنے لگا تو شاید جوڈی سے ہی کر لوں۔”
”اب سروس چھوڑنے کا سوچ رہے ہو؟” جنید کی سنجیدگی میں کچھ اضافہ ہو گیا۔
”فوری طور پر تو نہیں مگر In the long run شاید…ابھی میں ایم بی اے کروں گا پھر اگر کسی انٹرنیشنل ایجنسی میں جاب مل گئی تو دوبارہ پاکستان نہیں آؤں گا، نہ ملی تب میں پی ایچ ڈی کروں گا پھر دیکھوں گا کیا آپشنز ہوتے ہیں میرے پاس، ہو سکتا ہے تب تک پاکستان میں حالات کچھ بہتر ہو جائیں اور میں دوبارہ جاب کے لیے یہاں آ جاؤں مگر ابھی میرے پاس بہت سارے ” شاید” ہیں۔ وہ سنجیدہ ہو گیا۔
”تمہیں کہیں بھی ٹک کر بیٹھنے کی عادت نہیں ہے، اب آہستہ آہستہ یہ عادت اپنا لو۔” عمر اس کی نصیحت پر مسکرایا۔
”میں جپسی ہوں۔ میں کہیں بھی بہت دیر تک نہیں رہ سکتا، یہ سب کچھ سیکھنے سے نہیں آتا یہ سب کچھ قدرتی ہوتا ہے۔” اس بار اس کی آواز قدرے دھیمی تھی۔ شاید کچھ اور سال گزر جانے کے بعد مجھ میں کچھ تبدیلیاں آجائیں۔ God Knows۔”
اس نے ڈائننگ ہال میں ادھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے خالی لہجے میں کہا۔ ”چھٹی پر کب جا رہے ہو؟” جنید نے موضوع بدل دیا۔
”بس کچھ دنوں کی بات ہے، سامان وغیرہ کی پیکنگ شروع کروا دی ہے، بیس تک میں لاہور میں ہوں گا بائیس کو فلائٹ ہے میری۔”
جنید کھانا کھاتے کھاتے رک گیا۔
”کیا مطلب؟”
”کس بات کا؟”
”کہاں کی فلائٹ ہے تمہاری؟”
”امریکہ کی۔”
”تم میری شادی اٹینڈ کیے بغیر جاؤ گے؟” جنید کو یقین نہیں آیا۔
”مجبوری ہے۔”
”کیا مجبوری ہے؟” جنید برہم ہو گیا۔
”مجھے امریکہ جا کر اپنے آپشنز دیکھنا ہیں۔ کون سی یونیورسٹی بہتر رہے گی اور اس طرح کی اور بہت سی چیزیں…میں نے تو آج اپنی فلائٹ کی بکنگ بھی کروا لی ہے۔”
”I don’t believe it، تم میرے ساتھ اس طرح کرو گے۔”
”کیا کر رہا ہوں جنید! میرا پرابلم سمجھو یار۔”
”کیا پرابلم سمجھوں میری شادی روز روز تو نہیں ہو گی۔”
”مجھے پتا ہے روز روز نہیں ہو گی لیکن میں واپس آؤں گا، یونیورسٹی میں ایڈمیشن ہونے کے بعد کلاسز شروع ہونے سے پہلے آؤں گا۔ تم لوگوں کو ڈنر وغیرہ دوں گا فکر مت کرو۔” عمر نے اسے تسلی دینے کی کوشش کی۔
”اتنی جلدی تمہیں کلیئرنس کیسے مل گئی، ابھی تو تم نے چارج چھوڑا بھی نہیں ہے اور تمہیں خود احساس ہونا چاہیے تھا دو تین دن آگے پیچھے ہو جانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔”
”مجھے بہت فرق پڑتا ہے۔ تئیس کو مجھے امریکہ میں ہوناہے،ہر قیمت پر کیونکہ ایک لمبا چوڑا سلسلہ ہے وہاں میرے کاموں کا، یہ ایک اتفاق ہی ہے کہ مجھے بائیس کی فلائٹ ملی ورنہ میں تو بیس کی کوشش کر رہا تھا، مگر اب بیس کو لاہور پہنچنا ہوگا۔ تمہارے ساتھ سارا دن گزاروں گا بلکہ تمہارے گھر پر۔ میری اور تمہاری دوستی اہم ہے، شادی میں آنا نہ آنا اہم نہیں ہوتا۔”
”میرے لیے بہت اہم ہے تم جو کر۔۔۔”
عمر نے اس کی بات کاٹی۔
”اچھا تم ایسا کرنا کہ تم بھی میری شادی پر نہ آنا ٹھیک…حساب برابر ہو جائے گا۔”
جنید کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔ ”علیزہ تمہارے بارے میں جو کچھ کہتی ہے، ٹھیک کہتی ہے۔