Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

تمہیں واقعی دوسروں کے جذبات اور احساسات کی کوئی پروا نہیں ہے۔ ٹھیک ہے، مت آؤ میری شادی پر میری طرف سے بھاڑ میں جاؤ۔” جنید ویٹر کو اشارہ کرنے لگا۔
”ویٹر کو مت بلاؤ۔ میرا خاصا لمبا ڈنر کرنے کا ارادہ ہے، ابھی تو ایک اور کورس چلے گا۔”
عمر نے کہا۔ جنید ویٹر کو اشارہ کرتے کرتے رک گیا۔
”بس اب اپنا غصہ ختم کرو پانی پیو۔ تمہیں پتا ہے تمہارے غصے کا مجھ پر کوئی اثر نہیں ہوتا، میں دیکھوں گا اگر ممکن ہوا تو فلائٹ کینسل کر دوں گا۔” عمر نے اسے تسلی دی۔
”تم وعدہ کر رہے ہو؟” جنید نے کہا۔
”میں ایک امکان کی بات کر رہا ہوں۔”
”مجھے تمہارے امکانات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجھ سے صاف صاف بات کرو۔” جنید نے کہا۔
”یہ بحث ڈنر کے بعد کریں گے، ابھی کھانا انجوائے کرو یار!” عمر نے اسے ٹالا۔



جنید کچھ دیر اسے گھورتا رہا اور ایک بار پھر اپنی پلیٹ پر جھک گیا، کچھ دیر کے بعد وہ پہلے کی طرح گپ شپ میں مصروف تھے۔
کھانا ختم کرنے کے بعد عمر نے اپنا والٹ نکال لیا۔
”میں بل دوں گا۔” جنید نے اس سے کہا۔ ”تم کو یہاں میں لایا تھا۔”
”نہیں آج میں دوں گا ہمیشہ تمہارا کھایا ہے آج تم پولیس والوں کا بھی کھاؤ۔” عمر نے اپنا والٹ کھولتے ہوئے کہا۔
”ضرور کیوں نہیں، دو بل۔” جنید نے لاپروائی سے اپنا والٹ دوبارہ اپنی پاکٹ میں رکھ لیا۔ عمر نے ویٹر کو اشارہ کیا تھا۔
”جنید! میری گاڑی تم لے لو۔” اس نے اچانک کہا۔
”تم اسے بیچنا چاہتے ہو؟”
”شرم کرو اپنی چیزیں تمہیں بیچوں گا؟” عمر نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔ وہ اب بل دیکھتے ہوئے ویٹر کو ادائیگی کر رہا تھا۔
”پھر…؟”
”آفر کر رہا ہوں کہ تم لے لو، تحفہ دے رہا ہوں یار! میں تو جا رہا ہوں گاڑی کا اب کیا کرنا ہے، بیچنا میں نہیں چاہتا کیونکہ جلدی میں جس طرح چیزیں بکتی ہیں، تم جانتے ہو اور رکھ میں سکتا نہیں۔ یہاں پاکستان میں کون دیکھے گا اسے تم میری طرف سے شادی کا تحفہ سمجھو، پچھلے سال لی ہے یار…! ابھی تو بالکل نئی ہے۔”
”لیکن میرے پاس تو گاڑی ہے۔” جنید نے کہا۔
”کوئی بات نہیں یہ بھی رکھ لو، یہ تم لے لو اپنی والی علیزہ کو گفٹ کر دینا۔” جنید اس کی بات پر ہنسا۔
”تمہاری گاڑی کو پہچانتی ہے۔ طوفان کھڑا نہیں کرے گی وہ؟”
نہیں کرے گی یار! سمجھانا اسے، اتنا بھی فرمانبردار بننے کی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔”
”اچھا لے لیتا ہوں۔”
عمر مسکرایا ۔ ”اور میرا سامان گرینی کی انیکس میں آجائے گا۔ تم اور علیزہ چاہو تو وہ بھی لے لو۔” جنید نے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”کیوں…؟”
”میں نے تمہیں بتایا ہے، میں لمبے عرصے تک باہر رہنا چاہتا ہوں۔ سامان پڑا پڑا خراب ہوتا رہے گا، ویسے بھی واپس آکر میں سب کچھ نیا لوں گا۔” عمر نے اٹھتے ہوئے کہا۔



”تمہیں اتنا حاتم طائی بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ واپس آکر ان چیزوں کو خود استعمال کرنا۔” جنید نے اسے جھڑکا۔
”میری آفربرقرار ہے۔ تم اور علیزہ جو چاہو، اس میں سے لے سکتے ہو۔” عمر مصر تھا۔
”گاڑی بہت کافی ہے۔ اس سے زیادہ مہنگا تحفہ میری شادی پر کوئی اور نہیں دے گا اور میں بہت زیادہ متاثر اور مرعوب ہو گیا ہوں۔ مزید کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں تمہاری چیزوں کا خیال رکھوں گا۔ علیزہ ہے، نانو ہیں کیوں خراب ہوگا سامان؟”
”گرینی علیزہ کی شادی کے بعد انکل ایاز کے ساتھ رہیں گی اسلام آباد میں، ملازم ہی ہوں گے دوچار، وہ بھی اپنے کوارٹرز میں، گھر تو تقریباً بند ہی ہو جائے گا۔ کون دیکھے گا اسے۔” وہ اب ریسٹورنٹ سے باہر نکل آئے تھے۔
”تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،میں اور علیزہ جاتے رہیں گے وہاں کوئی چیز خراب نہیں ہو گی I assure you۔” جنید نے اسے یقین دہانی کروائی۔
”تم کون سا صدیوں کے لیے جا رہے ہو، دو سال بعد آؤ گے ہی بلکہ اس سے پہلے ہی آنے کی کوشش کرنا۔” جنید نے اس سے کہا۔
”یہ تو آگے چل کر ہی پتا چلے گا۔” عمر نے کہا۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!