”مجھے عمر سے محبت تھی، ویسی ہی محبت جیسی آپ کرتے ہیں۔ صرف فرق یہ ہے کہ وہ آپ کا دوست ہے اور میری محبت…میرے لیے کسی زمانے میں وہ سب سے اہم شخص تھا، اتنا اہم کہ میں اس کے کہنے پر کچھ بھی کر سکتی تھی۔ تب مجھے یہ غلط فہمی تھی کہ شاید میری محبت یکطرفہ نہیں ہے عمر بھی مجھ سے محبت کرتا ہے۔”
اس نے بت بنے جنید کو دیکھا اور سر جھکا لیا۔ اس نے اپنی کافی میں ایک چمچ چینی کا اضافہ کیا اور اپنی بات جاری رکھی۔
”ایسا نہیں تھا۔ اسے مجھ سے محبت نہیں تھی، اسے مجھ میں دلچسپی تک نہیں تھی۔ اس کے نزدیک میں ایک امیچور، ایموشنل، احمق کزن تھی اس نے مجھے اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں سمجھایا پھر شاید یہ جوڈتھ تھی جس کی جگہ اس نے مجھے کبھی نہیں دی میں نے اسے نانو کے ذریعے پرپوز کیا تھا مگر اس نے انکار کر دیا ۔ یہ میرے لیے زندگی کا سب سے بڑا صدمہ تھا، ہم دونوں کے درمیان پھر سب کچھ ختم ہو گیا صرف تلخی رہ گئی۔ اس نے زندگی میں کبھی بھی مجھ سے سچ نہیں بولا کبھی نہیں۔ ہمیشہ جھوٹ ہوتا تھا اس کی زبان پر، ہر چیز، ہر حقیقت کو اس نے مجھ سے چھپایا مگر مجھے سب کچھ پتا چلتا گیا۔ کچھ وقت لگا مگر میں اس کو بہت اچھی طرح جانتی گئی۔ اس لیے ناپسند کرتی ہوں میں عمر کو، اس لیے نہیں کہ اس نے میرے پرپوزل کو ٹھکرا دیا، شاید شروع میں یہی وجہ ہو مگر بعد میں یہ اس کی اصلیت تھی جس نے مجھے اس سے برگشتہ کیا۔ وہ میرا پرپوزل قبول کر لیتا تو بھی میرے لیے عمر کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مشکل ہوتا، میں کسی منافق اور دوغلے آدمی کے ساتھ نہیں رہ سکتی تھی اور جو آدمی بے رحم، خودغرض اور ظالم بھی ہو۔ اس کے ساتھ تو…آپ کو عمر کے بارے میں میں نے یہ سب کچھ نہیں بتایا کیونکہ مجھے آپ کے اور عمر کے تعلق کا پتہ نہیں تھا ورنہ میں یہ سب کچھ آپ کو بہت پہلے بتا دیتی، ہم جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں اس طرح کی پسندیدگی اور break ups بہت عام ہیں، کوئی بھی شادی کرتے ہوئے یہ ساری چیزیں اٹھا کر دوسرے پارٹنر کے سامنے نہیں رکھتا نہ ہی ایسی چیزوں کے بارے میں اس سے پوچھتا ہے۔ میرے لیے بھی یہ بہت عام بات ہے لیکن اب جب مجھے آپ کے اور عمر کے درمیان تعلق کا پتا چل چکا ہے تو پھر آپ کو بھی میرے اور عمر کے بارے میں سب کچھ پتا ہونا چاہیے۔ سب کچھ…میں اسے پسند کرتی تھی۔ میں نے اس سے شادی کرنے کی کوشش کی میں ناکام رہی اور میں اب اس سے محبت نہیں کرتی ہوں میں شاید اب اس سے نفرت بھی نہیں کرتی ہوں۔
مگر ابھی تک دوبارہ شادی کی تاریخ کے بارے میں کچھ طے نہیں ہوا۔ اب آپ خود یہ طے کر لیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔”
وہ کافی کا آخری سپ لے کر اٹھ کھڑی ہوئی۔ جنید ہلا تک نہیں، کسی مجسمے کی طرح وہ گنگ، دم بخود وہاں بیٹھا تھا۔ علیزہ مزید کچھ کہے بغیر ریسٹورنٹ سے باہر آگئی۔
جنید کا ذہن آندھیوں کی زد میں آیا ہوا تھا۔ عمر جہانگیر…اس نے یہ سب کیوں کیا…؟ اس طرح؟ صرف علیزہ نہیں تھی جسے تاریکی میں رکھا گیا تھا، وہ خود بھی اسی طرح اندھیرے میں رکھا گیا تھا۔ جنید نے اپنے احساسات کو شناخت کرنے کی کوشش کی…کیا یہ قابل یقین تھا کہ وہ عمر جہانگیر علیزہ کے بارے میں یہ جاننے کے باوجود کوئی خاص گوشہ نہیں رکھتا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتی تھی۔ کیا وہ واقعی جوڈتھ سے محبت کرتا تھا۔ اسے کیا کرنا چاہیے تھا۔ کیا عمر سے بات کرنی چاہیے تھی۔ کیا جوڈتھ سے بات کرنی چاہیے تھی۔ وہ اس تاریکی سے نکلنا چاہتا تھا جس میں عمر اسے رکھ رہا تھا۔
اس نے ایک بار پھر اپنے احساسات کو ٹٹولنے کو پہچاننے کی کوشش کی غصہ… غصہ… غصہ… وہ زندگی میں کبھی اتنا مشتعل نہیں ہوا تھا۔