ایاز حیدر اس کے جواب پر یک دم بھڑک اٹھے۔ عمر نے اس بار کچھ کہنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ خاموش رہا۔
”تم پورے خاندان میں واحد ہو۔ جس کے لئے مجھے اتنی بار اس طرح کی وضاحتیں اور معذرتیں کرنی پڑ رہی ہیں۔ ورنہ ہر کوئی بڑی آسانی سے ہر طرح کے سیٹ اپ میں ایڈجسٹ ہو جاتاہے۔ صرف تم ہو جسے کبھی کسی سے شکایات شروع ہو جاتی ہیں اور کبھی کسی سے۔” وہ اب بلند آواز میں دھاڑ رہے تھے۔
”آخر کب تک میں تمہاری پشت پناہی کرتا رہوں گا۔ کب تک تمہیں بچاتا رہوں گا۔ تمہیں نہ صورت حال کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے نہ اپنی اور فیملی کی عزت کا۔ تمہیں پروا تک نہیں ہے کہ میں تمہارے لئے اپنا کتنا وقت ضائع کر کے تمہیں فون کر رہا ہوں تو پھر مجھے کیا ضرورت ہے تمہیں عقل دینے کی۔ جاؤ ڈوبو۔ مائی فٹ ۔۔۔”
انہوں نے دوسری طرف سے بڑے غصے کے ساتھ فون پٹخا۔ عمر بہت دیر تک ریسیور ہاتھ میں لئے بیٹھا رہا۔ ایاز حیدر کے اس طرح مشتعل ہونے سے اسے اس بات کا اندازہ تو اچھی طرح ہو گیا تھا کہ اس بار معاملہ خاصا خراب ہے۔ ورنہ ایاز حیدر اس سے اس طرح بات نہ کرتے۔ وہ واقعی پوری فیملی کے لئے گاڈ فادر کی طرح تھے۔ ہر معاملے میں وہ اپنے خاندان کے مفادات کے تحفظ کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتے تھے اور کم از کم یہ ایسی چیز نہیں تھی جس نے انہیں کبھی پریشان کیا ہو جس کی وجہ سے وہ کبھی احساس ندامت کا شکار ہوئے ہوں اور اب اگر وہ عمر کے معاملے پر اس طرح جھنجھلا رہے تھے تو یقیناً اس بار انہیں عمر کا دفاع کرنے میں واقعی کچھ دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
عمر جہانگیر کم از کم اتنا زیرک ضرور تھا کہ اسے اس بات کا اندازہ ہو جاتا اور وہ اتنا احمق یا جذباتی بھی نہیں تھا کہ اپنی جاب کو اس طرح جذبات میں آ کر گنوا دیتا۔ فون کا ریسیور رکھ کر وہ کچھ دیر تک اس سارے معاملے کے بارے میں سوچتا رہا۔ ایاز حیدر کا اس کی پشت سے ہاتھ اٹھا لینا اس کے لئے واقعی خاصا مہنگا ثابت ہو سکتا تھا۔ مگر انہیں اس وقت فوری طور پر دوبارہ فون کرنے کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ وہ غصے میں دوبارہ اس سے بات کرنا پسند نہ کرتے۔ مگر اس کے لئے ضروری ہو گیا تھا کہ وہ ایک بار ان سے اس سارے معاملے پر گفتگو کرتا۔
اس نے ایک گھنٹے کے بعد انہیں فون کیا۔ ان کے پی اے نے چند منٹوں کے بعد ایاز حیدر سے اس کا رابطہ کروا دیا تھا۔
”جی عمر جہانگیر صاحب ! آپ نے کیوں زحمت فرمائی ہے یہ کال کرنے کی؟” ایاز حیدر نے اس کی آواز سنتے ہی طنزاً کہا تھا مگر اس کے باوجود عمر جانتا تھا کہ وہ اس وقت غصے میں نہیں تھے۔ ان کے کال ریسیو کر لینے کا مطلب یہی تھا۔
”انکل ! آپ کیا چاہتے ہیں، میں کیا کروں؟” عمر نے بڑی سنجیدگی سے کسی تمہید کے بغیر ان سے پوچھا۔
”میں چاہتا ہوں کہ تم کرنل حمید سے ملو …اس سے معذرت کرو، پھر سارا معاملہ ٹھیک ہو جائے گا۔”
”اور اگر اس نے مجھ سے ملنے سے انکار کر دیا تو؟”
”نہیں کرے گا …میں اس پر بھی کچھ پریشر ڈلواؤں گا۔ تم بہر حال اس سے ملاقات تو کرو۔”
”ٹھیک ہے، میں اس سے مصالحت کی کوشش کرتا ہوں۔ پھر میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کیا ہوا؟”
”مجھے اس کے بارے میں جلدی انفارم کرنا اور ہاں یہ علیزہ کے سسرال والوں نے شادی کی تاریخ کو آگے کرنے کی خواہش کا اظہار کیوں کیا ہے، تمہارا تو رابطہ ہو گا ان کے ساتھ؟”
ایاز حیدر نے …موضوع بدلتے ہوئے کہا۔ عمر یک دم محتاط ہو گیا۔
”میں نیوز پیپر میں نوٹس پڑھ کر حیران رہ گیا۔ میں نے تو ممی سے کہا ہے کہ انہیں اس طرح نوٹس دینے سے پہلے مجھ سے بات کر لینی چاہیے تھی” وہ عمر کو بتا رہے تھے۔
”جنید کے گھر والوں کو پہلے ہی شادی کی تاریخ سوچ سمجھ کر رکھنی چاہیے تھی۔ بعد میں اس طرح تبدیلی تو بہت نامناسب بات ہے۔”
”آپ کی گرینی سے بات ہوئی ہے؟”
”ہاں بڑی لمبی بات ہوئی ہے۔ میں پریشان ہو گیا تھا نوٹس دیکھ کر…پھر انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ جنید کے گھر والوں نے شادی کے التوا کی درخواست کی تھی۔ تمہیں پتا ہے اس بات کا؟”
”ہاں میری جنید سے بات ہوئی تھی۔” عمر نے گول مول انداز میں کہا۔
”پھر…؟” ایاز حیدر تقریباً تفصیلات جاننا چاہ رہے تھے۔
”یکدم ہی بس کچھ پرابلمز آگئی تھیں۔ اس کی بہن کو کچھ ہفتوں کے لیے سنگاپور جانا تھا۔ خود اس کے ایک دو پروجیکٹس کی ڈیٹس کا مسئلہ ہونے لگا۔ اس کے کچھ دوسرے رشتہ دار بھی ان دنوں باہر سے نہیں آ سکتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے بہتر سمجھا کہ ایک ماہ کے لیے شادی آگے کر دی جائے۔”
عمر نے یکے بعد دیگرے جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔ نانو نے یقیناً علیزہ کو بچانے کے لیے اس نوٹس کو جنید کے گھر والوں کے سر تھوپ دیا تھا۔ یہ خوش قسمتی ہی تھی کہ ایاز حیدر نے سیدھا جنید کے گھر فون کرکے اس کے والدین سے بات نہیں کی تھی۔ ورنہ اس جھوٹ کا انکشاف ہو جاتا۔ وہ شاید عمر کے معاملے میں الجھے ہونے کی وجہ سے اس طرف اتنا دھیان نہیں دے پائے تھے۔
”جنید نے مجھ سے یہ سب کچھ ڈسکس کیا تھا بلکہ اس نے پوچھا تھا کہ اگر شادی کو آگے کر دیا جائے تو ہماری فیملی کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا میں نے گرینی سے بات کی تھی۔ پھر یہی طے ہوا کہ شادی آگے کر دی جائے۔”
”اچھا مگر ممی نے تو مجھ سے کہا ہے کہ انہوں نے اچانک ہی درخواست کی تھی۔ یہ تو انہوں نے نہیں بتایا کہ تم نے ان سے اس سلسلے میں بات کی تھی۔” ایاز حیدر نے کہا۔
”گرینی کے ذہن میں نہیں رہا ہوگا اور جہاں تک ریکویسٹ کی بات ہے تو وہ انہوں نے اچانک ہی کی تھی۔ ورنہ پہلے تو وہ بھی تیاریوں میں ہی مصروف تھے۔” عمر نے گول مول بات کی۔
”میں آج فون کروں گا ابراہیم کو، اس معاملے پر اگر تھوڑی بہت بات ہو جائے تو اچھا ہے۔”