”انکل ابراہیم تو کوئٹہ گئے ہوئے ہیں۔” عمر نے بڑی رسانیت سے کہا۔
”کل رات میں جنید سے بات کر رہا تھا تو اس نے مجھے بتایا تھا۔ وہاں کسی بینک کی بلڈنگ کا پراجیکٹ ہے جنید بھی دو چار دن تک وہیں جا رہا ہے۔ آپ آنٹی فرحانہ سے بات کر لیں۔” عمر نے آخری جملہ ادا کرتے ہوئے رسک لیا تھا۔
”نہیں، ان سے کیا بات کروں گا۔ ابراہیم کو آنے دو پھر ان ہی سے بات کروں گا۔” حسب توقع ایاز حیدر نے کہا۔
”اچھا پھر تم مجھے کرنل حمید سے اپنی ملاقات کے بارے میں جلد انفارم کرو۔” رسمی الوداعی کلمات کے ساتھ انہوں نے فون رکھ دیا۔
عمر کچھ دیر گہری سوچ میں گم رہا۔ پھر اس نے اپنے پی اے کو کرنل حمید سے کانٹیکٹ کروانے کا کہا۔
وہ ایک فائل چیک کر رہا تھا جب پی اے نے اسے فون پر اطلاع دی۔
”سر! کرنل حمید کاآپریٹر کہہ رہا ہے کہ آپ کو ان سے کیا بات کرنی ہے؟”
”اس سے کہو کہ میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں۔”
”سر! میں نے یہی کہا تھا مگر وہ پوچھ رہا تھا کہ آپ کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ پہلے وہ بات بتائیں۔”
”اس سے کہو کہ میں اس کو بات نہیں بتا سکتا۔ وہ کرنل حمید سے میری بات کروائے۔” عمر نے کچھ سختی سے اسے ہدایت دی۔
کچھ دیر بعد فون کی گھنٹی ایک بار پھر بجی ”سر! وہ کہہ رہا ہے کہ جب تک آپ بات نہیں بتائیں گے وہ کرنل حمید سے آپ کا رابطہ نہیں کروا سکتا۔” عمر کو اندازہ ہو گیا کہ کرنل حمید اسے آپریٹر کے ذریعہ زچ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
”اس سے کہو کہ صاحب کرنل حمید سے کوئی ذاتی بات کرنا چاہتے ہیں۔” عمر نے اپنے غصے کو ضبط کرتے ہوئے کہا۔
کچھ دیر کے بعد پی اے نے ایک بار پھر اس سے رابطہ کیا۔
”سر! وہ کہہ رہا ہے کہ کرنل حمید دفتر میں ذاتی باتیں نہیں کرتے۔”
”تو پھر اس سے کہو کہ وہ ان کے گھر کا نمبر دے دے۔” پی اے نے کچھ دیر بعد اس سے کہا۔
”سر ! وہ کہہ رہا ہے کہ صاحب کا گھر کا نمبر ہرایرے غیرے کے لیے نہیں ہوتا۔” اس بار پی اے نے کچھ جھجکتے ہوئے تک کرنل حمید کے پی اے کے الفاظ پہنچائے تھے۔
”بات کراؤ میری اس آپریٹر سے۔” اس بار عمر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔
”یس سر! ” پی اے نے مستعدی سے کہا۔
چند منٹوں کے بعد عمر نے دوسری طرف کسی کی آواز سنی۔
”ایس پی سٹی عمر جہانگیر بات کر رہا ہوں۔ کرنل حمید سے بات کراؤ۔” عمر نے کھردرے لہجے میں کرنل حمید کے پی اے سے کہا۔
”سر! وہ ابھی کچھ دیر پہلے آفس سے نکل گئے ہیں۔” اس بار کرنل حمید کے آپریٹر کا لہجہ مودب تھا شاید یہ عمر کے عہدے سے زیادہ اس کے لہجے کا اثر تھا۔
”کب واپس آئیں گے؟” عمر نے اسی انداز میں پوچھا۔
”سر! یہ نہیں پتا، وہ ٹیم کے ساتھ گئے ہیں۔”
”میں کل صبح ان سے ملنا چاہتا ہوں۔”
”سر! آپ یہ بتا دیں کہ آپ کس سلسلے میں ان سے ملنا چاہتے ہیں۔”
عمر نے اس کو بات مکمل نہیں کرنے دی۔
”یہ جاننا تمہارا پرابلم نہیں ہے۔ میں ایس پی ہوں، کسی بھی سلسلے میں ان سے بات کر سکتا ہوں۔” اس بار عمر کا لہجہ اتنا کھردرا اور تحکمانہ تھا کہ پی اے نے کچھ ہکلاتے ہوئے کہا۔
”تو سر! پھر آپ اپائنمنٹ لے لیں۔”
”اپائنمنٹ میرا پی اے طے کرے گا تمہارے ساتھ، میں نہیں۔”
عمر نے کہتے ہوئے فون بند کر دیا اور پھر اپنے پی اے کو کرنل حمید کے آپریٹر کے ساتھ بات کرنے کے لیے کہا۔ کچھ دیر بعد پی اے نے اسے اگلے دن کی اپائنمنٹ کی تفصیل بتا دی تھی۔
٭٭٭