”بے وقوفی کی باتیں مت کیا کرو علیزہ! کیا تم نے طے کر رکھا ہے کہ۔۔۔”
علیزہ نے غصے کے عالم میں شہلا کی بات کاٹ دی۔ ”تم میرے سامنے نانو کے جملے مت دہراؤ…میں تنگ آ چکی ہوں اس طرح کے جملے سن سن کر۔”
شہلا ابھی کچھ دیر پہلے ہی علیزہ کے پاس آئی تھی۔ اس نے بھی اخبار میں وہ نوٹس پڑھ لیا تھا، وہ کوشش کے باوجود فون پر علیزہ سے رابطہ نہیں کر سکی۔ پھر وہ کچھ پریشانی کے عالم میں خود اس کے گھر چلی آئی تھی اور اب وہ علیزہ کو سمجھانے کی کوشش میں مصروف تھی۔
”یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہوتا جتنا تم نے سمجھ لیا ہے۔” شہلا اس کے غصے سے متاثر ہوئے بغیر بولی۔ ”آخر اس سارے معاملے میں جنید اور اس کی فیملی کا کیا قصور ہے بلکہ عمر کا بھی کیا قصور ہے۔ اس نے ایسا کون سا غلط کام کر دیا ہے جس پر تم اس طرح ناراض ہو رہی ہو۔”
”تمہارے خیال میں یہ غلط کام ہی نہیں ہے؟ تمہارے نزدیک تو پھر کوئی بھی غلط کام نہیں ہوگا۔”
”عمر نے کیا کیا؟ اس نے تمہیں جنید سے ملوایا ، تم نے خود اس کو پسند کیا…اور پھر تمہاری ہی مرضی کے مطابق اس سے تمہاری شادی ہو رہی تھی۔”
”عمر سے کس نے کہا تھا کہ وہ مجھے جنید سے ملوائے، میرے ساتھ اتنی ہمدردی کرنے کی کیا ضرورت تھی اسے؟ غلط بیانی کرکے اس نے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔ کیا میرے اور اس کے درمیان اتنے اچھے تعلقات تھے کہ وہ اپنے بیسٹ فرینڈ کو میرے لیے اس طرح پیش کرتا اور وہ بھی ایسا دوست جو صرف اس کے کہنے پر مجھے اپنے گلے میں لٹکا رہا تھا۔”
”علیزہ! تم کمال کرتی ہو۔ جنید تمہیں کیوں گلے میں لٹکائے گا۔ تمہاری طرح اسے بھی ایک لڑکی سے ملوایا گیا۔ اسے تم پسند آئیں اس لیے وہ تم سے شادی کر رہا تھا۔ کورٹ شپ اور کسے کہتے ہیں۔ ہماری فیملیز میں اسی طرح لڑکے لڑکی کو آپس میں ملوایا جاتا ہے۔ ملوانے والا کون ہے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اہم چیز تو یہ ہے کہ جس سے ملوایا جا رہا ہے وہ کیسا ہے اور کم از کم میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ عمر نے تمہیں کسی غلط آدمی سے نہیں ملوایا۔ تمہارے نزدیک عمر کا دوست ہونے کے علاوہ اس میں کوئی خرابی نہیں ہے اور یہ ایسی خرابی ہے جو تمہارے علاوہ کسی دوسرے کو نظر نہیں آئے گی۔”
”ہر چیز اس طرح نہیں ہے جس طرح تم میرے سامنے پیش کرنے کی کوشش کررہی ہو۔ عمر نے جنید کو پریشرائز کیا ہے مجھ سے شادی کرنے کے لیے۔”
”یہ ناممکن ہے جنید۔۔۔”
”اس نے مجھ سے خود کہا ہے کہ اس کی عمر سے اتنی گہری دوستی ہے کہ عمر اسے میرے بجائے کسی اور سے بھی شادی کا کہتا تو وہ اسی سے شادی کر لیتا۔” علیزہ نے شہلا کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”جنید اس طرح کا آدمی لگتا ہے تمہیں کہ وہ آنکھیں بند کرکے عمر کے کہنے پر کسی کے بھی گلے میں شادی کا ہار ڈال دیتا یا اس کی فیملی اس طرح کی نظر آتی ہے تمہیں کہ وہ کسی بھی لڑکی کو آسانی سے قبول کر لیتے۔۔۔” شہلا نے اس کی بات کے جواب میں کہا۔
”جنید جتنا میچور اور سوبر آدمی ہے وہ کسی بھی لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا تھا۔ چاہے یہ بات وہ اپنے منہ سے کہے تب بھی۔ اسے اگر یہ احساس ہو جاتا کہ تم اس کی فیملی کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں ہو سکتیں یا تمہارے ساتھ اس کی انڈر سٹینڈنگ نہیں ہو سکے گی تو وہ کبھی بھی تم سے شادی نہ کرتا۔ عمر کے کہنے پر بھی وہ اپنی فیملی کو نظر انداز نہیں کر سکتا ہے۔آخر تم اس بات کو محسوس کیوں نہیں کرتیں۔”
”میں کچھ بھی محسوس کرنا نہیں چاہتی۔ میں اس سب سے باہر نکل چکی ہوں اور میں بہت خوش ہوں۔”
”ہر بے وقوف آدمی تمہاری طرح ہی سوچتا ہے۔ مصیبت میں قدم رکھ کر یہ سمجھتا ہے کہ وہ مصیبت سے نکل چکا ہے۔ آخر تم خطرہ دیکھ کر کبوتر کی طرح کب تک آنکھیں بند کرتی رہو گی۔” شہلا نے کچھ چڑ کر کہا۔ ”ہر کام سوچے سمجھے بغیر کرتی ہو تم۔ نانو کو کتنے لوگوں کے سامنے جھوٹ بولنا اور وضاحتیں کرنی پڑیں گی۔ یہ سوچا ہے تم نے؟”
”میں کیوں سوچوں؟نانو سوچیں اس کے بارے میں آخر انہوں نے بھی تو مجھے ہر چیز کے بارے میں اندھیرے میں رکھا تھا۔”
شہلا کچھ بے بسی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی۔ ”تمہیں واقعی کوئی افسوس، کوئی دکھ نہیں ہو رہا۔ اس رشتے کو ختم کرکے۔”
”نہیں ۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔”
”ایک سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اس کے ساتھ تمہاری انگیجمنٹ کو۔ کیا اتنا آسان ہے تمہارے لیے اسے بھلانا۔” علیزہ کچھ دیر خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔
”اگر میں عمر کو بھلا سکتی ہوں تو جنید…اس کو بھلانا کیا مشکل ہے۔ عمر سے زیادہ لمبی ایسوسی ایشن تو کسی کے ساتھ نہیں ہو سکتی تھی میری۔” اس نے کچھ دیر کے بعد کہا۔
”کہنے میں اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے علیزہ!” شہلا نے عجیب سے انداز میں کہا۔ علیزہ نے دل ہی دل میں اعتراف کیا۔ واقعی کہنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔
”اتنے عرصے سے تم جنید کے گھر آ جا رہی ہو۔ کیا تمہیں اپنی وجہ سے ہونے والی ان کی پریشانی کا بھی کوئی احساس نہیں ہو رہا۔”
وہ ساری گفتگو میں پہلی بار الجھ کر خاموش رہی اسے اگر اس سارے معاملے میں کسی سے شرمندگی تھی تو وہ جنید کے گھر والے ہی تھے اور کم از کم وہ ان کے حوالے سے وہ اپنے آپ کو مطمئن نہیں کر پا رہی تھی۔
”میرے پاس ان کے لیے معذرت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔” اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔
”وہ واقعی یہ سب کچھ deserve نہیں کرتے جو میں کر رہی ہوں مگر میرے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔”
”دوسرا راستہ؟ علیزہ! تمہارے پاس فی الحال ہر راستہ موجود ہے۔ تم اگر اپنے فیصلے پر ایک بار نظرثانی کرو تو سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ دوسروں کے ساتھ ساتھ تم اپنے معاملے کو بھی سلجھا لو گی۔”
”میں کسی معاملے کو سلجھانا نہیں چاہتی۔” اس نے صاف گوئی سے کہا۔ ”ہر چیز پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچ چکی ہے۔”
”یا پہنچائی جا چکی ہے؟” شہلا نے کچھ دیر دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم یہی سمجھ لو۔”
”زندگی میں کوئی پوائنٹ آف نو ریٹرن نہیں ہوتا۔ ہر بار اور ہر جگہ سے واپس آیا جا سکتا ہے اگر تھوڑی سی عقلمندی اور دور اندیشی کامظاہرہ کیا جائے تو۔”
”اور یہ دونوں خصوصیات میرے اندر نہیں ہیں۔ یہ تو تم اچھی طرح جانتی ہو۔” اس نے تیز لہجے میں کہا۔
”آخر تم اتنی ضد کیوں کر رہی ہو علیزہ۔” علیزہ نے ایک بار پھر اس کی بات کاٹی۔
”اب پھر میرے سامنے تقریر مت کرنا کہ میں پہلے تو ایسی نہیں تھی …اب کیوں ہو گئی ہوں وغیرہ۔”
”مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ تم خود ہی یہ سب جانتی ہو۔”
”ہاں، میں جانتی ہوں اور مجھے اپنی ہٹ دھرمی سے کوئی پریشانی نہیں ہے …یہ عادت دیر سے سیکھی ہے مگر میرے لئے یہ بہت فائدہ مند ہے …دیر آید درست آید کے مصداق۔” علیزہ نے سنجیدگی سے کہا۔
شہلا تقریباً تین گھنٹے اس کے ساتھ سر کھپا کر اگلے دن پھر آنے کا کہہ کر چلی گئی تھی۔
٭٭٭