عمر دس منٹ کی اپائنمنٹ کا سن کر خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔
اس نے پولیس سروس صرف اس Absolute power (مکمل اختیارات) کے لئے جوائن کی تھی جو کسی پولیس آفیسر کے پاس ہوتی تھی …اسے اب یوں لگنے لگا تھا جیسے اس کے پر کاٹ کر آزادی دی گئی ہے …ہر گزرتا دن اس احساس کو بڑھاتا جا رہا تھا اور وہ یہ احساس رکھنے والا واحد آفیسر نہیں تھا …اسے اگر بے جا مداخلت بری لگ رہی تھی تو دوسرے آفیسرز کو کرپشن ختم کرنے کے لئے آرمی کا چیک تنگ کر رہا تھا …یہ ملک و قوم کی خدمت نہیں تھی جس کے لئے سول سروس میں آتے تھے یہ دو سے چار اور چار سے آٹھ بنانے کا فارمولا تھا۔ جس کو سیکھنے کے لئے لوگ اس میدان میں کودتے تھے یا پھر کچھ کو وہ Authority اس طرف کھینچ لاتی تھی جو کسی بھی آفیسر کے پاس موجود ہوتی تھی اور آرمی، بیوروکریسی سے یہی دونوں چیزیں کھینچنے کی کوشش کر رہی تھی۔
عمر کے ساتھ بھی یہی ہو رہا تھا۔ اب بعض دفعہ اسے فارن سروس سے پولیس سروس میں آنے کے فیصلے پر افسوس ہوتا اور بعض دفعہ سول سروس میں سرے سے آنے پر اگر دوسروں کے ہاتھوں کٹھ پتلیاں بن کر ہی ناچنا تھا تو پھر تو پوری دنیا پڑی تھی …کہیں بھی جا سکتا تھا …کہیں بھی کیرئیر بنا سکتا تھا …آخر پاکستان ہی کیوں …وہ اکثر سوچتا اور اپنے فرینڈز اور کولیگز سے ڈسکس کرتا رہتا …اس ڈسکشن میں حصہ لینے والا وہ واحد نہیں تھا وہاں ہر دوسرے بندے کے پاس یہی مسائل تھے۔ پاور شیئرنگ آرمی اور بیورو کریسی دونوں کے لئے جیسے گالی کی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔
آرمی کے بعد اگر ملک میں کوئی دوسرا آرگنائزڈ اسٹرکچر تھا تو وہ بیورو کریسی کا ہی تھا اور دونوں ایک دوسرے کے حربوں، ہتھکنڈوں اور چالوں سے بخوبی واقف تھے، یہی وجہ تھی کہ دونوں میں سے کوئی بھی دوسرے کو مات دینے میں ناکام رہتا تھا۔ دوسرے کے پاس پہلے ہی ہر چیز کا توڑ موجود ہوتا تھا …دونوں طرف بہترین دماغ اور بد ترین سازشی موجود تھے …دونوں طرف بہترین خوشامدی اور بہترین درباری موجود تھے اور دونوں طرف ذہین ترین احمقوں کی بھی بڑی تعداد تھی۔ اس بار پہلی بار آرمی نے سول سیٹ اپ پر کاری ضرب لگائی تھی اور پہلی بار بیورو کریسی کو واقعی اپنی پاور خطرے میں محسوس ہونے لگی تھی۔ کچھ نے محاذ آرائی کا رستہ اختیار کیا تھا کچھ نے بغیر کسی حجت کے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ عمر پہلی ٹائپ میں شامل تھا اور دوسری ٹائپ میں شامل ہونے کی تمام کوششوں کے با وجود اس میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔
٭٭٭