Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

وہ اگلے دن ساڑھے دس ہونے والی اپائنٹمنٹ سے پانچ منٹ پہلے ہی کرنل حمید کے آفس پہنچ گیا۔ یہ ایک حفاظتی قدم تھا جو تاخیر کی صورت میں کرنل حمید کی طرف اپائنٹمنٹ کینسل نہ ہونے سے بچنے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔
کرنل حمید اسے آفس میں نہیں ملا۔ اس کا پیغام ملا۔ اس نے عمر کی اپائنٹمنٹ کینسل کروا دی تھی کیونکہ بقول پی اے ”صاحب کہہ رہے ہیں کہ وہ بہت مصروف ہیں۔”
”یہ تمہارے صاحب کو پہلے پتا ہونا چاہیے تھا۔” عمر نے ناراضی کے عالم میں پی اے سے کہا۔ ”اگر انہوں نے اپائنٹمنٹ طے کی تھی تو انہیں ملنا چاہیے تھا۔”
”اپائنٹمنٹ تو سر میں نے طے کی تھی کرنل صاحب نے تو نہیں کی تھی، وہ بھی آپ نے زبردستی اپائنٹمنٹ طے کروائی تھی۔”
پی اے اب بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ تیزی سے کہہ رہا تھا شاید اسے عمر کے لئے کرنل حمید سے خاص ہدایات ملی تھیں عمر کو اس کے سامنے بے پناہ ہتک کا احساس ہوا۔



”وہ آپ کے لئے پیغام دے کر گئے ہیں کہ آپ چاہیں تو فون پر اپنی بات کہہ سکتے ہیں۔” پی اے نے اس سے کہا۔
عمر اس کے پیغام کے جواب میں کچھ بھی کہنے کے بجائے وہاں سے نکل آیا۔
اپنے آفس واپس آنے کے بعد اس نے ایاز حیدر کو فون کیا اور انہیں اس تمام معاملے کی تفصیلات بتا دیں۔
”میں نے آپ کو پہلے ہی بتا دیا تھاکہ یہ آدمی مصالحت نہیں چاہتا۔” اس نے تفصیلات بتانے کے بعد کہا۔ ”یہ آدمی صرف میری بے عزتی کرنا چاہتا ہے۔ صرف مجھے اپنے سامنے جھکانا چاہتا ہے اور کچھ بھی نہیں۔” وہ تقریباً پھٹ پڑا۔
”اور اب تو میں دوبارہ کبھی اس کی شکل تک دیکھنے نہیں جاؤں گا۔” ایاز حیدر کچھ دیر خاموشی سے اسے بولتا سنتے رہے پھر انہوں نے کہا۔
”عمر ! میں چاہتا ہوں تم چند ماہ کی چھٹی پر چلے جاؤ۔”
”کیا مطلب؟” وہ یک دم ٹھٹھک گیا۔
”ہاں، تم چند ماہ کی چھٹی پر چلے جاؤ، نہ تم یہاں رہو گے نہ یہ مسئلے پیدا ہوں گے۔”
”مگر میں کیوں چھٹی پر چلا جاؤں، اس سے میرا کیرئیر ۔۔۔”
ایاز حیدر نے اس کی بات کاٹی ”کیرئیر کی تم فکر مت کرو۔ میں ہوں اس کو دیکھنے کے لئے، تم بس چند ماہ کی چھٹی پر چلے جاؤ۔”
”میں اس طرح اپنی جاب چھوڑ کر جانا نہیں چاہتا، آپ …۔۔۔”
”تم نہیں جاؤ گے تو پھر تمہیں بھیج دیا جائے گا۔”
”آپ نے کہا تھا میری ٹرانسفر کر رہے ہیں۔” عمر نے انہیں یاد دلایا۔
”ہاں کر رہے ہیں۔ تمہاری خدمات وفاقی حکومت کو واپس کر رہے ہیں اور وہاں سے تم بھیجے جاؤ گے بلوچستان، کوئٹہ تم کو نہیں ملے گا، اور کون سا اور کیسا شہر مل سکتا ہے۔ اس کا اندازہ تمہیں اچھی طرح ہو گا۔”
عمر کا دل ڈوب گیا۔ وہ بلوچستان یا سرحد بھجوائے جانے کا مطلب اچھی طرح سمجھتا تھا۔
”پھر کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ تم چھٹی پر چلے جاؤ …کم از کم چھٹی کے بعد تم کسی بہتر پوسٹنگ کی امید تو رکھ سکتے ہو۔”
”انکل ! میں دو چار ماہ کی چھٹی نہیں چاہتا۔” عمر یک دم سنجیدہ ہو گیا
”مجھے دو سال کی چھٹی چاہیے …ایکس پاکستان لیو۔”
”کس لئے؟”
”بس میں واقعی اس سب سے تنگ آ چکا ہوں۔ اگر چھٹی پر ہی جانا ہے تو لمبی چھٹی پر کیوں نہیں۔”
”تم کرنا کیا چاہتے ہو اتنی لمبی چھٹی کا؟”



”میں کچھ عرصے سے سوچ رہا تھا کہ واپس جا کر اپنی اسٹڈیز کو دوبارہ شروع کروں، ایم بی اے کر لوں۔”
”اس کا کیا فائدہ ہو گا۔ دو سال ضائع ہوں گے تمہارے۔” ایاز حیدر نے اسے بتایا۔
”ہونے دیں۔ ابھی بھی تو مجھے یونہی لگتا ہے جیسے میں وقت ضائع کر رہا ہوں۔” عمر نے تلخی سے کہا۔
”میں اس طرح اپنی tenure پوری ہونے سے پہلے کہیں نہیں جانا چاہتا تھا۔ مگر اب اگر یہ مجھے زبردستی ٹرانسفر کر ہی دینا چاہتے ہیں تو بہتر ہے میں لمبی چھٹی پر چلا جاؤں۔”
”تم اب ایک بار پھر جذباتی ہو کر سوچ رہے ہو۔ جاب میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔” ایاز حیدر نے اس بار بہت نرم لہجے میں اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
”میری جاب میں صرف نیچ ہے۔ اونچ ابھی تک مجھے نظر نہیں آئی۔” عمر نے تلخی سے ہنس کر کہا۔
”فارن سروس میں بھی تم اسی طرح منہ اٹھا کر بھاگ گئے تھے۔”
”انکل ! آپ جانتے ہیں، میں فارن سروس میں کس کی وجہ سے بھاگا تھا۔ پاپا کی وجہ سے۔ ورنہ میں وہاں بڑا خوش تھا۔” عمر نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!