Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

”اور یہاں پر تم آرمی کی وجہ سے بھاگ رہے ہو۔” ایاز حیدر نے اپنی بات جاری رکھی۔
”ہر جگہ تم کسی نہ کسی وجہ سے بھاگتے رہو گے تو کام کیسے چلے گا کیرئیر ایسے نہیں بنتا بیٹا۔ بڑے جھٹکے سہنے پڑتے ہیں۔”
”میں نہیں سہہ سکتا اور کم از کم اب تو نہیں، فی الحال تو ہر لحاظ سے میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔”
”تم اتنی جلد بازی میں فیصلہ نہ کرو، اچھی طرح اس بارے میں سوچ لو۔” ایاز حیدر نے کہا۔
”انکل! میں بہت اچھی طرح اس کے بارے میں سوچ چکا ہوں، میں نے آپ کو بتایا ہے، میں پچھلے کچھ عرصے سے صرف اسی کے بارے میں ہی سوچتا آ رہا ہوں۔ آپ پلیز، اس سلسلے میں میری مدد کریں۔” اس نے قطعیت سے کہا۔
”جب ایم بی اے کر لو گے، اس کے بعد پھر کیا کرو گے؟”
”پتا نہیں، ابھی تو میں صرف یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔”
”میں جہانگیر سے اس سلسلے میں بات کروں گا۔ تم ابھی سارے معاملے کے بارے میں ایک بارپھر سوچو۔” انہوں نے اسے پھر سمجھانے کی کوشش کی۔
”آپ مجھے چھٹی دلوا سکتے ہیں یا نہیں؟ ” عمر نے ان کی بات کے جواب میں سوال کیا۔



”دیکھو عمر! فی الحال تو تمہارے لئے صرف دو چار ماہ کی چھٹی پر جانا بہتر ہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد تم اپنی چھٹی بڑھوا لینا۔ کیونکہ ابھی فوری طور پر تم پر کوئی بھی اتنی مہربانی نہیں کرے گا کہ فوراً تمہیں دو سال کی چھٹی دے دے۔ تمہاری حرکتوں کی وجہ سے تمہارا سروس ریکارڈ خاصا خراب ہو چکا ہے۔ اس لیے پہلے میں تمہاری چار ماہ کی چھٹی منظور کرواتا ہوں بعد میں اسے دیکھیں گے۔” ایاز حیدر نے اسے دوٹوک الفاظ میں کہا۔
”ٹھیک ہے آپ فی الحال مجھے چار ماہ کی چھٹی پر بھجوا دیں۔” عمران کی بات مان گیا۔
”میں فوری طور پر اپنی چھٹی کی منظوری چاہتا ہوں۔”
”آئی جی تم سے اتنا ناخوش ہے کہ وہ بڑی خوشی سے تمہیں چھٹی پر بھجوائے گا۔ تم کو اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔” ایاز حیدر نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔



”بلکہ وہ تم سے اتنا بیزار ہے کہ اس کا بس چلے تو وہ تمہاری اس چھٹی کو کبھی ختم نہیں ہونے دے۔”
”وہ خود کون سا بڑا اچھا آدمی ہے، تاریخ میں اس سے زیادہ نکما اور بزدل آئی جی آج تک اپائنٹ نہیں ہوا۔” عمر نے بڑی بے باکی سے تبصرہ کیا۔
کچھ احتیاط کرو…اگر تمہاری لائن انڈر آبزرویشن ہوئی تو ایسے تبصروں کے بعد تمہارا کیا حشر ہوگا۔ تمہیں یاد رکھنا چاہیے۔”
”اگر وہ آپ کا دوست نہ ہوتا تو میں یہ جملہ اس کے منہ پر اس کے آفس میں کہہ کر آتا۔ میں اس سے خوفزدہ نہیں ہوں۔” عمر نے بے خوفی سے کہا۔
”تم کتنے بہادر ہو، میں اچھی طرح جانتا ہوں۔ فی الحال فون بند کر رہا ہوں۔ کال خاصی لمبی ہو گئی ہے۔ تم اب اپنا سامان پیک کرنا شروع کروا دو، میں چند دنوں تک تمہاری چھٹی کے بارے میں آرڈر تم تک بھجوا دوں گا۔”
ایاز حیدر نے فون بند کرتے ہوئے کہا۔ فون کا ریسیور رکھ کر عمر نے بے اختیار سر کو جھٹکا۔ اپنی کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر وہ بہت دیر تک اپنی کنپٹیوں کو مسلتا رہا۔

٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!