جنید کی امی کو اگر اس کی خاموشی، اس کا ہتھیار ڈال دینا لگا تھا تو واقعی ایسا ہی تھا۔ جن باتوں پر اسے پہلے سوچنا چاہیے تھا، وہ ان کے بارے میں اب سوچ رہی تھی۔ اشتعال اور جلد بازی میں کیے ہوئے فیصلے کے مضمرات اب پہلی بار اس کے سامنے آرہے تھے۔ یہ یقیناً جنید کی امی کی گفتگو کا نتیجہ نہیں تھا، اگرچہ ان کی گفتگو نے اس کی کنفیوژن اور پچھتاوے میں اضافہ کیا تھا مگر وہ اس پچھتاوے کا موجب نہیں تھیں۔ اسے ہر ایک سے اسی ردعمل کی توقع تھی مگر اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ خود اس قدر شرمندگی اور ندامت محسوس کرے گی، اگر دوسروں کو میری پروا نہیں ہے تو مجھے بھی دوسروں کی پروا نہیں ہونی چاہیے۔” اس نے وہ نوٹس شائع کروانے سے پہلے سوچا تھا لیکن اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ دوسروں کی پروا کرنے کے لیے مجبور ہے۔ کم از کم وہ ہر شخص کو ناراض کرکے خوش رہنے والے لوگوں میں شامل ہونے کی صلاحیت یا اہلیت نہیں رکھتی تھی اور جنید کیا واقعی، اس کے لیے کوئی احساسات رکھتی تھی…؟ اس شخص کے لیے جسے وہ چند ہفتوں میں اپنے ہم سفر کے طور پر دیکھ رہی تھی جس کے ساتھ وہ پچھلے ایک سال سے منسوب تھی جس کے ساتھ وہ مستقبل کو پلان کرتی پھر رہی تھی۔
وہ بار بار خود کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی کہ جنید کو اس سے محبت نہیں ہے۔ اس سے شادی صرف عمر کی خواہش کا احترام تھا لیکن اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ دوسری طرف جو کچھ بھی تھا، کم از کم اس کے لیے جنید کوئی عام شخص نہیں رہا تھا، وہ اسے بار بار یاد آرہا تھا بہت آہستہ آہستہ اس کا غصہ اور اشتعال ختم ہو رہے تھے۔
اگلے دو تین دن جنید کے گھر والے آتے رہے، جنید بار بار فون کرتا رہا۔ نانو اسے سمجھاتی رہیں، ثمینہ اپنی مجبوریاں اسے بتاتی رہیں، سکندر نے کراچی سے لاہور آکر اس سارے معاملے پر اس سے بات کی۔
اس نے چوتھے دن ہتھیار ڈال دیئے۔ اس نے اعتراف کیا تھا وہ پریشر کے سامنے نہیں ٹک سکتی تھی۔ وہ مضبوط نہیں تھی، اگر وہ ایسی کوشش کر بھی لیتی تو بھی کیا وہ جنید اور اس کی فیملی کے بغیر رہ سکتی تھی۔ وہ نہیں رہ سکتی تھی…وہ انہیں بھول نہیں سکتی تھی۔ وہ انہیں کاٹ کر اپنی زندگی سے الگ نہیں کر سکتی تھی۔
نانو نے اس کے فیصلے پر سکون کا سانس لیا تھا، اس کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ مسائل کا سامنا انہیں ہی کرنا پڑتا تھا، وہ خوش تھیں کہ وہ بچ گئیں۔
”میں نہیں جانتا۔ میں تمہارا شکریہ کیسے ادا کروں؟” جنید نے فون پر اس سے کہا تھا۔
”اس کی ضرورت نہیں ہے۔” علیزہ نے جواباً کہا۔
”تم میرے لیے بہت اہم ہو۔”
”میں جانتی ہوں۔” اس نے مختصراً کہا۔
”Last few days were a nightmare I’m happy I’m out of it”
(پچھلے چند دن ایک بھیانک خواب کی طرح تھے، میں خوش ہوں کہمیں اس سے نکل آیا)
وہ اس کے لہجہ سے اس کے سکون اور اطمینان کا اندازہ کر سکتی تھی۔
”جنید! آپ نے ایک حقیقت مجھے بتا دی، ایک مجھے آپ کو بتانی ہے۔ کیا ہم کل مل سکتے ہیں؟” علیزہ نے کہا۔
”کل…کل نہیں، کل میں مصروف ہوں گا۔” جنید کو یاد تھا کل عمر لاہور آرہا تھا اور اسے عمر کے ساتھ ہونا تھا۔
”پرسوں ملتے ہیں۔” ”ٹھیک ہے، پرسوں ملتے ہیں۔”
٭٭٭