Blog

_fabd499b-2fdc-47e2-8653-08fc96ce6594

امر بیل ۔قسط۔ ۲۶۔ عمیرہ احمد

 

Ten
9:10am
عمر نے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر بالوں میں برش کیا اس نے کل رات کو بال کٹوائے تھے۔ پولس فورس میں آنے سے پہلے تک وہ سال میں کئی بار ہیر سٹائل تبدیل کرنے کا شوقین تھا۔ دس سال پہلے سول سروس جوائن کرنے کے بعد اگرچہ یہ شوق کچھ کم ہو گیا مگر ختم نہیں ہوا۔ سول سروس میں وہ جس حد تک ہیر کٹ کے بارے میں آزاد روی کا مظاہرہ کر سکتا تھا اس نے کیا مگر پولیس سروس میں آکر یہ شوق یکدم ختم ہو گیا۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے معمولی سی تبدیلیوں کے ساتھ کریوکٹ کو ہی اپنائے ہوئے تھا۔
کل رات بھی اس نے بالوں کو اسی انداز میں ترشوایا تھا، دو چار بار بالوں میں برش کرنے کے بعد اس نے برش ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ دیا اور پرفیوم اٹھا کر اپنے اوپرسپرے کرنے لگا۔ سپرے کرتے ہوئے اپنی گردن پر نظر آنے والے چند سرخ نشانات نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔



پرفیوم ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اس نے گردن اوپر کرکے اپنے کالر کو کچھ کھولتے ہوئے ان نشانات کو دیکھا۔ کل شام کو گالف کھیلتے ہوئے اسے اس جگہ پر اچانک جلن اور خارش ہوئی تھی یقیناً کسی کیڑے نے اسے کاٹا تھا رات کی نسبت وہ اب کچھ معدوم ہونے لگے تھے۔ اس نے کچھ مطمئن ہوتے ہوئے اپنے کالر کو ایک بار پھر درست کیا پھر پلٹ کر اپنے بیڈ کی طرف گیا اور بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑی ہوئی رسٹ واچ اٹھا کر اپنی کلائی پر باندھنے لگا۔ رسٹ واچ باندھنے کے بعد اس نے بیڈ سائیڈ ٹیبل پر پڑا ہوا اپنا موبائل سگریٹ کیس اور لائٹر اٹھایا۔
ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آکر اس نے ان چیزوں کو ٹیبل پر رکھا اور سٹینڈ پر لٹکی کیپ اتار کر پہننے لگا۔ کیپ پہن کر اس نے ایک آخری نظر آئینے میں اپنے اوپر ڈالی پھر مطمئن ہوتے ہوئے اس نے ایک بار پھر موبائل، سگریٹ کیس اور لائٹر کو اٹھا لیا پھر جیسے اسے کچھ یاد آیا وہ واپس سائیڈ ٹیبل کی طرف گیا۔ اس بار اس نے دراز کھول کر اس کے اندر موجود والٹ نکالا اور اسے اپنی جیب میں ڈال لیا۔ اس کے بعد اس کی نظر اس کتاب پر پڑی جسے وہ رات کو سونے سے پہلے پڑھ رہا تھا۔ کتاب کو اس نے اوندھا کرکے کھلی حالت میں بیڈ سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا تھا۔
اسے حیرت ہوئی، وہ عام طور پر کتابیں کبھی بھی اس طرح نہیں رکھتا تھا۔ پھر اسے یاد آیا رات کو وہ یہ کتاب پڑھ رہا تھا جب جوڈتھ کی کال آئی تھی۔ اس نے فون پر اس سے بات کرتے کرتے کچھ بے دھیانی کے عالم میں کتاب کو بک مارک رکھ کر بند کرنے کے بجائے اسی طرح سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ جوڈتھ سے بات ختم کرنے کے بعد دوبارہ اس کتاب کو پڑھنا چاہ رہا تھا مگر جوڈتھ سے اس کی بات بہت لمبی ہو گئی اور اس نے جس وقت فون بند کیا۔ اس وقت عمر کو نیند آنے لگی تھی۔ وہ کتاب کی طرف متوجہ ہوئے بغیر ہی سو گیا تھا۔



اس نے کتاب اٹھائی اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہوا بک مارک اٹھا کر اس کے اندر رکھا پھر اسے بند کر دیا۔ کتاب کو واپس سائیڈ ٹیبل پر رکھنے کے بجائے وہ کتابوں کے اس شیلف کی طرف بڑھ گیا اس نے کتاب کو اس شیلف میں رکھ دیا۔ اگلے کچھ دن اسے اتنے کام کرنے تھے کہ اسے توقع نہیں تھی کہ وہ اس کتاب کو پڑھنے کے لیے اب وقت نکال سکے گا۔ کچھ دنوں تک اپنے کام نمٹانے کے بعد اسے اپنا سامان پیک کروانا تھا اور پھر اسے لاہور بھجوا دینا تھا اور اس کے بعد اسے لاہور سے امریکہ جانے کی تیاریوں میں مصروف ہو جانا تھا۔
اس کتاب کو وہ اب شاید امریکہ جا کر ہی پڑھنے کی فرصت نکال پاتا۔ وہ بھی اس صورت میں اگر وہ اس کے ذہن میں رہتی اور وہ اسے امریکہ ساتھ لے جاتا ورنہ اگلے کچھ سالوں تک وہ کتابیں گرینی کی انیکس میں ہی پڑی رہنی تھیں۔ وہ امریکہ جانے سے پہلے اپنے سامان کو ایک بار پھر وہیں رکھوانا چاہتا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا اس نے جوڈتھ کو رات کو اپنی امریکہ واپسی کے بارے میں بتا دیا تھا۔ وہ بے اختیار چلائی تھی۔
”تو بالآخر تم واپس آرہے ہو؟”
”ہاں بالآخر۔” عمر اس کے جوش و خروش پر مسکرایا۔
”کب تک رہو گے یہاں؟”
”اس مہینے کے آخر تک۔” کمرے کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے اسے رات کو جوڈتھ ہونے والی اپنی گفتگو یاد آنے لگی۔
٭٭٭

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!