One
1:50pm
کچہری میں موجود اپنے آفس سے نکل کر وہ دوبارہ اپنی گاڑی میں آ بیٹھا۔ جبار گاڑی چلاتے ہوئے دوبارہ اسے مین روڈ پر لے آیا۔ عمر نے ایک بار پھر سن گلاسز لگا لیے تھے۔
”کار سروس کروا لی ہے میری؟” عمر نے جبار سے پوچھا۔
”جی سر…میں کروا کر گھر چھوڑ کر آیا ہوں۔”
”کسی خرابی وغیرہ کے بارے میں کہا تو نہیں مکینک نے؟”
”نہیں سر…گاڑی بالکل ٹھیک ہے، اس نے چیک کی تھی اچھی طرح۔”
عمر سر ہلاتے ہوئے باہر دیکھنے لگا پھر اچانک ایک خیال آنے پر اس نے کہا۔
”راستے میں سے سگریٹ کا پیکٹ لینا ہے۔”
”جی سر۔” ڈرائیور نے کہا۔ چند منٹوں کے بعد اس نے راستے میں نظر آنے والی ایک مارکیٹ کے سامنے پارکنگ میں گاڑی روک دی اور کچھ کہے بغیر گاڑی سے اتر گیا۔ وہ عمر کے لیے اکثر اسی مارکیٹ کی ایک شاپ سے سگریٹ خریدا کرتا تھا۔
وہ تین منٹ میں سگریٹ خرید کر واپس آگیا۔ عمر نے سگریٹ کا پیکٹ اس سے لیتے ہوئے سگریٹ کو کیس میں رکھنے کے بجائے پیکٹ میں سے ایک سگریٹ نکالا اور پیکٹ کو ڈیش بورڈ پر رکھ دیا۔ ڈرائیور تب تک گاڑی سٹارٹ کرکے اسے ریورس کرتے ہوئے پارکنگ سے نکال رہا تھا۔ پولیس موبائل باہر سڑک پر ہی کھڑی تھی۔ ڈرائیور گاڑی ایک بار پھر مین روڈ پر لے آیا۔
عمر نے لائٹر سے ایک ہاتھ میں اوٹ بناتے ہوئے ہونٹوں میں دبا ہوا سگریٹ سلگایا اور پھر لائٹر کو دوبارہ ڈیش بورڈ پر رکھ دیا۔ کھڑکی کے شیشے کو اس نے کچھ اور نیچے کر دیا تاکہ دھواں آسانی سے باہر جاتا رہے، وہ اب اپنے باقی دن کی مصروفیات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ گاڑی تیزی سے سڑک پر رواں دواں تھی۔ دائیں طرف سے ایک موٹر سائیکل نے عمر کی گاڑی کو اوورٹیک کیا۔ موٹرسائیکل پر موجود دو آدمیوں میں سے پیچھے بیٹھے ہوئے شخص نے اپنے جسم کے گرد چادر لپیٹی ہوئی تھی۔ عمر کی گاڑی میں موجود گارڈز ہاتھ میں پکڑے ہتھیار لے کر یکدم چوکنا ہوتے ہوئے اوورٹیک کرتے ہوئے اس موٹرسائیکل کو دیکھنے لگے۔
سگریٹ پیتے ہوئے عمر نے بھی ونڈ سکرین سے آگے نکلتی ہوئی اس موٹرسائیکل کو اچٹتی نظروں سے دیکھا۔ موٹرسائیکل پر بیٹھے داڑھی والے نوجوان لڑکوں میں سے کسی نے عمر کی گاڑی کی طرف نہیں دیکھا تیزی سے موٹرسائیکل چلاتے ہوئے وہ دونوں آپس میں باتوں میں مصروف تھے اور اسی تیز رفتاری کے ساتھ موٹرسائیکل چلاتے ہوئے وہ عمر کی گاڑی سے بہت آگے نکلتے ہوئے آنے والی ایک دوسری سڑک پر مڑ گئے۔
پیچھے بیٹھے ہوئے گارڈز یکدم مطمئن ہو گئے۔ عمر نے سگریٹ کی راکھ کو جھٹکا اور سگریٹ کا ایک اور کش لگایا گاڑی کی سپیڈ اب آہستہ ہو رہی تھی۔ انہیں بھی اسی سڑک پر مڑنا تھا جس سڑک پر وہ موٹرسائیکل گئی تھی۔
اس سڑک پر مڑتے ہی وہ موٹرسائیکل رک گئی۔ پیچھے بیٹھے ہوئے لڑکے نے بڑی پھرتی کے ساتھ اپنی چادر کے اندر سے ایک اسٹین گن نکالی اور اس کے ٹریگر پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ بالکل خاموشی سے موٹرسائیکل پر یوں بیٹھ گیا جیسے اسے کسی کا انتظار ہو۔ اس سڑک پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ چند راہگیروں اور اکا دکا موٹرسائیکل اور گاڑی والوں نے انہیں دیکھا مگر صرف تجسس بھری نظروں سے دیکھ کر گزر گئے۔
اسٹین گن پکڑے ہوئے لڑکے کے ہاتھ میں بندھی ہوئی گھڑی نے اچانک سگنل دینا شروع کر دیا۔
”آگیا۔” اس کے منہ سے نکلا، کسی نے یقیناً موڑ پر پہنچنے والی عمر کی گاڑی کے بارے میں انہیں اطلاع دی تھی۔ موٹرسائیکل چلانے والا موٹرسائیکل کے ہینڈلز پر ہاتھ رکھے ہوئے مستعد ہو گیا۔ اسٹین گن اوپر ہو گئی۔ عمر کی گاڑی کا بونٹ نظر آیا۔ گاڑی مڑ رہی تھی۔ اس نوجوان نے ہونٹ بھنیچتے ہوئے ٹریگر دبا دیا۔ پہلا برسٹ ٹائرز پر پڑا تھا۔ گاڑی کو یکدم بریک لگے اور اس سے پہلے کہ گاڑی کا ڈرائیور یا گارڈز صورت حال کو سمجھ کر کچھ کر سکتے دوسرے برسٹ نے ونڈ سکرین کو چھلنی کر دیا۔ پولیس کی پیچھے آنے والی موبائل نے اچانک سائرن بجانا شروع کر دیا۔ موٹرسائیکل ایک فراٹے کے ساتھ اس سڑک پر بھاگنے لگی۔ وہ نوجوان اسٹین گن اپنی چادر کے اندر کر چکا تھا۔ جب تک موبائل موڑ مڑ کر عمر کی گاڑی کراس کرتے ہوئے آگے آئی اس سڑک پر سے موٹرسائیکل غائب ہو چکی تھی۔
٭٭٭