Zero
2:00pm
فضا میں تڑتڑاہٹ کی آواز کے ساتھ ہی جبار چلایا۔
”حملہ سر۔” اس کا پاؤں بریک پر تھا۔ وہ آگے کچھ نہیں کہہ سکا۔ وہ دو طرف سے گولیوں کی زد میں آیا تھا۔ ڈرائیور سیٹ کی کھڑکی اور ونڈ سکرین سے…اچانک لگنے والے بریک کے جھٹکے سے عمر یکدم جھک گیا۔ اس کا سر ڈیش بورڈ کے پاس تھا۔ جب اس نے جبار کی چیخیں سنیں اور ونڈ سکرین کی کرچیوں کو اڑتے دیکھا۔ ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں اس نے پہلے اپنے کندھے اور پھر اپنی گردن میں لوہے کی گرم سلاخیں سی گھستی محسوس کیں۔ وہ بے اختیار چلایا تھا پھر یکے بعد دیگرے اس نے کچھ اور سلاخوں کو اپنی گردن ، کندھے اور کندھے کی پشت میں دھنستے محسوس کیا۔ کتنی؟ وہ نہیں بتا سکتا تھا۔ پھر فضا میں یکدم خاموشی چھا گئی۔ اس کا سر ڈیش بورڈ پر ٹکا ہوا تھا۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بھی کوئی کراہ رہا تھا۔ درد کی شدت…چند سیکنڈز کے لیے کھلی نظروں سے اس نے ڈیش بورڈ سے سر ٹکائے ٹکائے اپنی آنکھوں میں اترتی دھند کو جھٹکنے کی کوشش کرتے ہوئے نیچے دیکھا۔ اس کے گھٹنے کے قریب خاکی ٹراؤزز خون سے بھیگ رہی تھی اس کی گردن کے اطراف اور عقب سے نکلنے والا خون ایک دھار کی صورت میں اس کی گردن کے نیچے والے حصے سے بہہ رہا تھا۔ اس نے سائرن کی آواز سنی۔ اس نے سانس لینے کی کوشش کی وہ جانتا تھا۔ پولیس موبائل ابھی اس کے پاس ہو گی وہ جانتا تھا وہ اگلے چند منٹوں میں ہاسپٹل لے جایا جائے گا، اس کے ذہن میں بہت سارے خیالات گڈمڈ ہو رہے تھے۔ چہرے آوازیں…ماضی…حال…چیزیں…لوگ…وہ سانس لینے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔ وہ چیخ یا کراہ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کے احساسات مکمل طور پر مفلوج نہیں ہوئے تھے اس نے دیکھا اس کے ہاتھ میں دبا سگریٹ خون کے اس تالاب میں گرا ہوا تھا جو اس کے پیروں کے پاس پائیدان میں جمع ہو گیا تھا مگر وہ ابھی سلگ رہا تھا ۔ اس میں سے اٹھتا ہوا دھواں عجیب سے انداز میں اوپر اٹھ رہا تھا۔ چند سیکنڈ میں اس نے سگریٹ کے شعلے کو مکمل طور پر بجھتے دیکھا پھر دھواں بند ہو گیا۔
اس کی آنکھوں سے پانی نکل رہا تھا اور اس کی ناک سے خون وہ اپنے سر کو سیدھا کرنا چاہتا تھا کوئی اس کا دروازہ کھول رہا تھا کوئی اس کے قریب بلند آواز میں بول رہا تھا۔
اس نے علیزہ کے چہرے کو اپنے ذہن کی سکرین پر ابھرتے دیکھا۔ بے اختیار اس نے سانس لینے کی کوشش کی پھر اس نے اس کے ساتھ جنید کو دیکھا وہ سانس نہیں لے سکا۔ اسے اپنا دایاں بازو کسی کے دونوں ہاتھوں کی گرفت میں محسوس ہوا۔ کوئی اس کے دائیں کندھے پر ماتھا ٹکائے رو رہا تھا۔ وہ ان آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کی نمی کو شرٹ کے اندر اپنے بازو پر محسوس کر رہا تھا۔
”مجھ سے یہ مت کہو کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتے، تمہیں پتہ ہے اس سے کتنی تکلیف ہوتی ہے مجھے۔”
اس نے اپنے بائیں کندھے پر کسی کے ہاتھ کی گرفت محسوس کی، کوئی اسے سیدھا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے اپنے دائیں کندھے کو کسی کی گرفت سے آزاد ہوتے پایا۔ ایک گہری تاریکی نے اس کو اپنے حصار میں لے لیا۔
ڈوبتے ہوئے ذہن کے ساتھ جو آخری احساس تھا، وہ کسی کے اسے گاڑی سے نکالنے کی کوشش کا تھا۔ اس کے ذہن میں ابھرنے والا آخری خیال اس کی ممی کا تھا۔