Nine
9:20am
اسے اپنے کمرے سے نمودار ہوتے دیکھ کر ملازم تیزی سے اس کے کمرے کی طرف چلا آیا۔ عمر کے پاس آکر اس نے مؤدب انداز میں اسے سلام کیا عمر نے گردن کو ہلکا سا خم دیتے ہوئے اس کے سلام کا جواب دیا اور پھر سیدھا ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھ گیا جبکہ ملازم میکانکی انداز میں اس کے بیڈ روم کی طرف چلا گیا۔
یہ روزانہ کا معمول تھا عمر کو اپنے کمرے سے باہر آتا دیکھتے ہی ملاز م اس کے بیڈ روم میں چلا جاتا اور پھر وہاں پڑا ہوا عمر کا بریف کیس اور اسٹک اٹھا کر اس کی گاڑی میں جا کر رکھ آتا۔
عمر عام طور پر نو بجے تک گھر سے نکل جاتا تھا مگر آج وہ قدرے لیٹ تھا۔ ڈائننگ ٹیبل کے پاس کھڑے دوسرے ملازم نے بھی اسے دیکھ کر سلام کیا اور پھر اس کے لیے کرسی کھینچنے لگا۔ ناشتہ پہلے ہی ڈائننگ ٹیبل پر موجود تھا۔ عمر نے اپنے ہاتھ میں پکڑی چیزیں ٹیبل پر رکھیں اور پھر کرسی پر بیٹھنے کے بعد اپنی کیپ بھی اتار کر ٹیبل پر رکھ دی۔
ملازم جان چکا تھا، وہ آج ناشتہ کرنے میں کچھ وقت لگائے گا۔ عام طور پر وہ جب بھی کیپ نہیں اتارتا تھا وہ زیادہ سے زیادہ ایک سلائس چائے کے ایک کپ کے ساتھ کھاتا اور پانچ منٹ کے اندر ناشتہ کی ٹیبل سے اٹھ جاتا اور جب وہ اپنی کیپ اتار دیتا، اس دن وہ ناشتے میں کسی نہ کسی چیز کی فرمائش ضرور کرتا اور اکثر پندرہ بیس منٹ لگا دیتا۔
”سر! آفس سے فون آیا ہے۔” ملازم نے اس کے لیے چائے انڈیلتے ہوئے اسے اطلاع دینا ضروری سمجھا۔
”کس لیے؟” عمر نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھا۔
”آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے، میں نے انہیں بتا دیا کہ آپ آج کچھ دیر سے آئیں گے۔” ملازم نے کہا۔
”کوئی ایمرجنسی تو نہیں تھی؟”
”نہیں سر! وہ ایسے ہی روٹین میں اپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے۔” عمر نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے سر ہلایا۔
”آج آملیٹ بنواؤ، فرائیڈ ایگ نہیں لوں گا۔” عمر نے ٹیبل پر ایک نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”جی سر۔” ملازم مستعدی سے ڈائننگ روم سے نکل گیا۔
عمر اس وقت چائے کا دوسرا کپ پی رہا تھا جب ملازم آملیٹ کی پلیٹ لیے ڈائننگ روم میں داخل ہوا۔
”شکل تو خاصی اچھی لگ رہی ہے غفور!” عمر نے پلیٹ میں موجود مشروم والے آملیٹ پر ایک نظر ڈالتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو ذائقہ بھی اچھا لگے گا سر۔” ملازم نے اس کے تبصرے کے جواب میں کہا اور سلائس والی پلیٹ اس کی طرف بڑھائی۔
”نہیں سلائس نہیں لوں گا۔ صرف آملیٹ ہی کھاؤں گا۔”
عمر نے اسے روک دیا۔ وہ اب چھری کانٹے کی مدد سے آملیٹ کے ٹکڑے کرنے میں مصروف تھا۔
”رات کو کیک کسٹرڈ اچھا بنا تھا۔ اگر ہے تو لے آؤ۔” اس نے مزید ہدایت دی۔
”جی سر۔” ملازم ایک بار پھر وہاں سے چلا گیا۔
جب وہ پیالہ لے کر وہاں آیا تو عمر آملیٹ کھانے میں مصروف تھا۔
”یہ واقعی ذائقے میں بھی اچھا ہے غفور! تمہارے کھانے دن بہ دن اچھے ہوتے جارہے ہیں۔”
عمر نے اسے دیکھ کر کچھ بے تکلفی سے کہا۔ غفور کا چہرہ اپنی تعریف پر چمکنے لگا تھا۔ عمر تعریف میں کبھی کنجوسی نہیں کرتا تھا۔ اس نے اب تک جتنے آفیسرز کے لیے کام کیا تھا اس میں اسے سب سے زیادہ عمر جہانگیر ہی پسند آیا تھا۔ وہ اگرچہ دوسرے آفیسر کی طرح ہی ریزرو رہتا تھا مگر وہ تعریف کرتے ہوئے ، کوئی تکلف نہیں برتتا تھا۔ وہ ویسے بھی خاصے کھلے دل اور جیب کا مالک تھا۔ اکثر اوقات اسے اور دوسرے ملازمین کو کچھ نہ کچھ دیتا رہتا تھا، ملازمین کی چھوٹی موٹی سفارشیں بھی مان لیتا تھا، یہ سب چیزیں بہت سے دوسرے آفیسرز میں بھی تھیں مگر غفور کو وہ اس لیے پسند تھا کیونکہ وہ غصے میں بھی ان کی تذلیل کرنے کا عادی نہیں تھا۔ وہ غلطی کرنے پر جھڑکنے میں تامل نہیں کرتا تھا مگر یہ ڈانٹ ڈپٹ ایسی نہیں ہوتی تھی کہ ان لوگوں کو تذلیل کا احساس ہوتا۔
”سر! رات کے لیے کیا بناؤں؟” غفور نے اس سے پوچھا۔
”جو چاہے بنا لو ، اب تو چند دن مہمان ہیں تمہارے تم جو چاہو کھلاؤ مگر رات کو تو شاید میں کھانے پر نہ آ سکوں۔ بہت دیر سے آؤں گا اور کھانا کھا…مگر عین ممکن ہے کہ آ ہی نہ سکوں مجھے کہیں ادھر ادھر جانا پڑے۔” عمر نے واش بیسن کی طرف جاتے ہوئے کہا۔
”کوئی بات نہیں سر…میں پھر بھی کھانا بنا لوں گا۔ ہو سکتا ہے آپ آ ہی جائیں۔”
غور نے اس کے پیچھے لپکتے ہوئے کہا۔ وہ اب واش بیسن میں کلی کر رہا تھا۔ غفور کی بات کے جواب میں کچھ بھی کہنے کے بجائے وہ خاموش رہا،غفور اب ٹاول سٹینڈ سے ٹاول اتار کر اسے دے رہا تھا۔ عمر ہاتھ خشک کرنے کے بعد دوبارہ ٹیبل کی طرف چلا گیا اور کیپ اٹھا کر پہننے لگا۔ غفور نے مستعدی سے موبائل ، سگریٹ کیس اور لائٹر ٹیبل سے اٹھا کر عمر کی طرف بڑھا دیا۔ عمران چیزوں کو ہاتھ میں لیتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ غفور اس سے پہلے دروازے پر پہنچ چکا تھا۔ دروازے کے پاس موجود قد آدم آئینے کے پاس پہنچ کر عمر ایک بار رکا اور اس نے اپنی کیپ پر نظر ڈالی پھر مطمئن ہو کر اس نے دروازے سے باہر قدم رکھ دیا جسے غفور اب کھول چکا تھا۔
”خدا حافظ سر۔” عمر نے اپنی پشت پرروز کی طرح غفور کی آواز سنی۔
٭٭٭