Six
10:50am
میز پر پڑا فون اچانک بجنے لگا۔ عمر نے گفتگو کا سلسلہ منقطع کرتے ہوئے ریسیور اٹھا لیا۔
”سر! ڈی سی صاحب کی کال ہے۔” آپریٹر نے اسے بتایا۔
”بات کرواؤ۔” عمر نے سامنے وال کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک ہے، اب تم جاؤ۔” اس نے ریسیور کان سے لگائے ہوئے پی اے سے کہا۔ وہ کمرے سے نکل گیا۔ چند لمحوں کے بعد عمر کو ریسیور میں سید سلطان شاہ کی آواز سنائی دی۔
”میں ابھی کچھ دیر پہلے ہی آفس آیا ہوں۔ آپ کو کال کرنے ہی والا تھا۔” عمر نے رسمی سلام دعا کے بعد قدرے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”کوئی بات نہیں اب تو میں نے کر ہی لی ہے۔” سید سلطان نے دوستانہ انداز میں کہا۔
”آج رات کو کیا کررہے ہو؟”
”رات کو…کچھ خاص نہیں شاید پھر آفس میں ہی ہوں گا…یا پھر کہیں پٹرولنگ پر۔”
”تو بس ٹھیک ہے پھر تم رات کا کھانا ہمارے ساتھ کھاؤ۔” سید سلطان نے طے کیا۔
”تمہاری آنٹی مجھے پہلے ہی کئی دن سے کہہ رہی ہیں کہ تمہیں کھانے پر انوائیٹ کروں۔ آج تم پھر ہماری طرف آ جاؤ۔ جانے سے پہلے ہمارے ساتھ ڈنر کر لو۔” سید سلطان نے بے تکلفی سے کہا۔
”I’m honoured آپ حکم کریں میں حاضر ہو جاؤں گا۔” عمر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ سید سلطان جہانگیر معاذ کے دوستوں میں سے تھے اور چند ماہ پہلے ہی عمر کے شہر میں ان کی پوسٹنگ ہوئی تھی۔
”خیر حکم والی تو کوئی بات نہیں ہے۔ حکم تمہارے باپ کو دیتا ہوں۔ تم باپ کی طرح ڈھیٹ نہیں ہو، میں جانتا ہوں ویسے ہی آجاؤ گے۔”
سید سلطان نے برجستگی سے کہا، عمران کے جملے پر ہنسا۔
”میں آپ کے انویٹیشن کا پہلے ہی انتظار کر رہا تھا۔ چاہتا تھا کہ جانے سے پہلے آنٹی کے ہاتھ کا کھانا ایک بار کھا لوں۔” سید سلطان نے اس کی بات کاٹی۔
”یہ تمہارے اپنے کرتوت ہیں جن کی وجہ سے تم ایک دو بار سے زیادہ ہماری طرف نہیں آئے۔ اب تم کس قدر فارمل ہو کر اپنی حسرتوں کا اظہار کررہے ہو۔جانے سے پہلے آنٹی کے ہاتھ کا کھانا ایک بار کھا لوں۔ ایک بار کیوں دس بار کھاؤ۔ ”وہ اب اسے اپنے مشہور زمانہ انداز میں جھڑک رہے تھے۔
”جی…جی مجھے پتہ ہے۔ میری اپنی کوتاہی ہے۔” عمر نے فوراً کہا۔
”کوئی خاص ڈش بنوانی ہو تو بتا دو…میں تمہاری آنٹی سے کہہ دوں گا۔” سید سلطان نے آفر کی۔
”آنٹی کی ہر ڈش خاص ہوتی ہے۔ میں سب کچھ خوشی سے کھاؤں گا۔”
”ٹھیک ہے، پھر آٹھ بجے ہونا چاہیے تمہیں ہماری طرف۔” سید سلطان نے اسے ہدایت دیتے ہوئے فون بند کر دیا۔
٭٭٭