Five
11:00am
عمر نے سگریٹ کیس سے ایک سگریٹ نکال کر سلگایا۔ وہ اس وقت اپنے آفس میں بالکل اکیلا تھا۔ سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے وہ ان مقامی اخبارات پر ایک نظر ڈالنے لگا جو اس کی میز پر پڑے تھے۔ اس کے عملے نے اہم یا پولیس سے متعلقہ خبروں کو ہائی لائٹ کیا ہوا تھا۔ اس وجہ سے اسے تمام اخبارات کا تفصیلی مطالعہ کرنا نہیں پڑتا تھا۔ وہ بڑے قومی اخبارات کامطالعہ آفس میں صبح آتے ہی کیا کرتا تھا جبکہ لوکل اخبارات کی باری دوپہر کے قریب آتی تھی۔
اس وقت بھی ان اخبارات کو دیکھتے ہوئے اسے اپنے بارے میں چند سرخیاں نظر آئیں اس کے پوسٹ آؤٹ ہونے کے حوالے سے چند خبریں لگائی گئی تھیں اور پھر ایک مقامی کالم نویس نے اس کی پوسٹنگ کے دوران اس کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اس کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے بھی ملائے تھے۔ وہ مسکراتے ہوئے کالم کو پڑھتا رہا۔ وہ کالم نویس ہر جانے والے افسر کی تعریف میں اس وقت تک زمین آسمان ایک کیے رکھتا تھا جب تک کہ نیا افسر نہ پہنچ جاتا اور نئے افسر کی آمد کے ساتھ ہی وہ کالم نویس پچھلے افسر کی برائیوں کی تفصیلات اور آنے والے کے قصیدے اکٹھے ہی پڑھنا شروع کر دیتا۔
اس وقت بھی اس کالم کو پڑھتے ہوئے اسے اس شخص کے جھوٹ اور چاپلوسی کی انتہا پر حیرانی ہو رہی تھی۔ اس نے وہ کام بھی اس کے کھاتے ہی ڈالنے کی کوشش کی تھی، جو اس نے وہاں اس شہر میں تو کیا کسی دوسرے شہر کی پوسٹنگ میں بھی کبھی نہیں کیے تھے۔ وہ کالم نویس قصیدہ خوانی میں کمال مہارت رکھتا تھا یا پھر وہ کالم بھی اس کے عملے میں سے کسی کی کاوش تھی۔ صاحب کو جاتے جاتے خوش کرنے کی ایک کوشش۔
وہ کچھ محظوظ ہو کر سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے وہ کالم پڑھتا رہا۔
کالم پڑھنے کے بعد اس نے دوسری خبروں پر نظریں دوڑانا شروع کر دیں۔ ایک خبر بار کی طرف سے اس کے اعزاز میں الوداعی دعوت کی تھی۔ ایک اور دعوت چیمبر آف کامرس کی طرف سے دی جا رہی تھی۔ اسے وکیلوں اور کاروباری افراد سے جتنی چڑ تھی کسی اور سے نہیں تھی مگر پولیس سروس میں اسے سب سے زیادہ سابقہ ان ہی دو طبقات سے پڑتا تھا۔
دس منٹ میں ان اخبارات کا جائزہ لینے کے بعد اس نے انہیں واپس ٹیبل پر رکھ دیا۔ اپنے چپڑاسی کو بلوا کر اس نے گاڑی تیارکروانے کے لیے کہا۔ اسے اب کچہری جانا تھا۔
اپنے آفس سے نکل کر وہ باہر جانے کے بجائے پولیس سٹیشن کا راؤنڈ لینے لگا۔ ہمیشہ کی طرح اسے اس دن بھی بہت سی چیزوں کی طرف اپنے عملے کی توجہ مبذول کروانی پڑی کچھ کے یونیفارم کی حالت اتنی ہی خستہ تھی جتنی ہمیشہ ہوتی تھی۔
دس منٹ میں اس نے اپنا راؤنڈ مکمل کیا اور باہر کمپاؤنڈ میں نکل آیا۔ اس کے گاڑی میں سوار ہونے کے بعد ایک بار پھر گارڈز اور ڈرائیور نے اپنی نشست سنبھال لی تھی اس کے آفس سے کچہری تک کا فاصلہ پندرہ منٹ میں طے ہوتا تھا۔
٭٭٭